الیکشن ٹریبو نل نے فیصلہ سنا دیا ۔دھاندلی بڑی بے عزت ہو گئی تھی۔ کوئی اسے بیاہنے کو تیار نہ تھا۔کوئی اس کا رشتہ لینے کو تیار نہ تھا۔ عمران خان کا تو یہ حال ہو گیا تھا ”دھاندلی دھاندلی کردی نی میں آپے دھاندلی ہوئی“۔ وزیراعظم پوچھ رہے تھے کہ ثبوت تھیلوں میں ہیں تو عمران خان کے پاس کیاہے ؟ اور ہم نے گزشتہ کالم میں جواب لکھ دیا تھاکہ سیاستدانوں کے پاس زبان کے سوا ہے کیا؟ وہ زبان جو کبھی جھوٹ بولتی ہے، کبھی وعدے کرتی ہے، کبھی الزامات لگاتی ہے ، کبھی خوشامد کرتی ہے، کبھی گالیاں دیتی ہے۔ تحریک انصاف کی پونی زندگی تو دھرنے، ترلے، جلسے، کرتے گزر گئی اور اس کے حریف بازیاں لیتے رہے مگر تحریک انصاف والے ڈھول بجانے، ناچنے اور مٹھائیاں کھانے کو ترستے رہے۔ گردن میں ”مہندی“ کا دوپٹہ ڈالے دھاندلی کی ڈھول بجاتے رہے۔ اللہ بھلا کرے جو ڈیشنل کمیشن کا جس نے دھاندلی کو سہاگن کر دیا۔ تحریک انصاف کے گلے میں پڑے مہندی کے دوپٹے نے خوب بھنگڑا ڈالا۔ عمران خان کے تھیلے کی بلی نے سعد رفیق کی راتوں کی نیند حرام کر دی ہے۔ سعد رفیق اور حامد خان دو مختلف شخصیات ہیں۔ سعد رفیق کی زبان کے سامنے بڑے بڑے دلائل کمزور پڑجاتے ہیں جبکہ حامد خان نے قانون کا راستہ اپنایا۔ ان کے ووٹروں نے شکست تسلیم نہیں کی۔ حامد خان چونکہ قانون دان ہیں لہذا انہوں نے نعرے بازیوں اور متکبرانہ بیان بازی کی بجائے قانونی لڑائی لڑی،عمران خان کو بھی عدلیہ اور ججوں کے خلاف غیر مہذب بیان بازی سے منع کیا کرتے تھے اور ایک مقام پر حامد خان نے توہین عدلیہ کی وجہ سے خان صاحب سے خاموش علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ تحریک انصاف میں شیخ رشید اور حامد خان ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ حامد خان پڑھا لکھا شخص ہے اور شیخ رشید کی نشریات شام آٹھ بجے کے بعد چلتی ہیں۔
اس دھاندلی کی وجہ سے ماضی کے سارے جج توپ کے دہانے پر تھے لیکن دھاندلی کو سہاگن بنانے والوں کے منہ چومے جا رہے ہیں، عمران خان نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ فیصلہ ان کی مرضی کا آیا تو قبول کیا جائے گا ورنہ اس کمیشن کی بھی ایسی کی تیسی۔ اور دھاندلی نے سہاگن ہو کر الیکشن ٹریبونل کو ہیرو بنا دیا، عمران خان ان کے صدقے واری جاتے نہیں تھکتے۔ فیصلہ کے فوری بعد سعد رفیق کا رد عمل بتا تا ہے کہ وہ اپنے حلقے میں دوبارہ الیکشن نہیں ہونے دیں گے۔ حکومتی پارٹی نے تحریک انصاف کو اسمبلی میں واپس بلانے کے لیئے بڑی کوشش کی حتیٰ کہ حکومت کو جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑا اور جب تحریک انصاف اسمبلی میں لوٹ آئی تو اس کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا جس کو دیکھ کر باحیاءمسلم لیگیوں کی گردنیں جھک گئیں۔ ریحام خان بنیادی طور پرصحافی ہیں ۔ شہرت صحافیوں کا خواب ہوتا ہے۔ میڈیا پر آنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتیں بلکہ موقع پیدا کر لیتی ہیں۔ عمران کی اہلیہ نہیں بلکہ ان کی ترجمان معلوم ہوتی ہیں ۔خان صاحب سے ان کا رشتہ دھرنے کے دوران جُڑا لہذادھاندلی کے جذبات سے واقف ہیں۔ دھاندلی نے ججوں کے سامنے اقرار کر کے نہ صرف اپنی عزت بچائی بلکہ اپنی پارٹی کے دھرنے کو بھی عزت بخشی۔ خوش خبری سنتے ہی باہر ڈھول بجنے لگے، مٹھائیاں تقسیم ہونے لگیں، بھابھی ریحام نے بھی دھاندلی کے سہاگن ہونے کی مبارکباد میڈیا پر آکر دی اور عوام کو یاد دلایا کہ انہوں نے عمران خان کے ساتھ دھاندلی نہیں کی بلکہ دھاندلی کی ڈولی اٹھانے میں ان کا اہم کردار ہے۔ سعد رفیق کے حلقے میںدوبارہ الیکشن ہو گئے تو ملکی سیاست ایک نیا موڑ لے سکتی ہے۔ تکبر کی ہمیشہ مات ہوئی ہے۔ تکبر نے عمران خان کو بھی لمبی اننگ کھیلنے پر مجبور کیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو زمین پر چلنا سکھانے کے لیئے ملک میں ایک تیسری پارٹی کا جنم لینا ضروری تھا۔ تیسری سیاسی پارٹی نے جنم لیا لیکن وہ بھی تکبر کا شکار ہو گئی پھر کیا تھا ”ہینڈ“ ہو گیا اور پھر یہ حال بن گیا کہ دھاندلی دھاندلی کرتے دکھائی دیئے۔ اس صورتحال میں ”امن“ نے گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ کرسی کی لڑائی جنگ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ مزید حلقے کھل گئے تو دھاندلی تحریک انصاف کے ماتھے کا جھومر بن جائے گی۔