غداری کا جرم پھانسی کی سزا کا باعث بنتا ہے مگر دھاندلی پر کوئی سزا نہیں، صرف دوبارہ الیکشن یا دوبارہ ووٹنگ۔غداری پر ایک مہمل سی معذرت اور خورشید شاہ کہتے ہیں کہ معاملہ رفع دفع۔ مجھے لگتا ہے کہ ضرب عضب ترک کر کے فوج کو ایک نئی جنگ لڑنا پڑے گی اور وہ بھی فی الفور ، اپنی نیک نامی کی بحالی کے لئے، قوم کوفیصلہ کرناہوگا کہ اسے پاک فوج چاہئے یا کوئی استعماری فوج۔ اور یہ فیصلہ بھی فوج کو کرناہے کہ کیا وہ ایک طرف گالیاں کھائے اور دوسری طرف کیپٹن قاسم جیسے کڑیل جوانون کی قربانی دے ۔میرا خیال یہی تھا اور یہ خوش گمانی ہو سکتی ہے کہ قوم اس وقت اپنی فوج کے ساتھ کھڑی ہے مگر جب فوج سے معذرت کرنے والا چیلنج دے کہ غداری کا مقدمہ چلانے کا شوق پورا کر لو اورا س کے بعد ہمارے چینلز کے ایک بغدادی منطقی نے یہ بحث چھیڑ دی کہ غداری کیا ہوتی ہے اور ٹویٹر پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ غدار مشرف کو کون تحفظ دے رہا ہے تو میری خوش گمانی ہوا ہو گئی ہے۔یہ سوال کسی اور نے نہیں پوچھا ، اس شخص نے پوچھا ہے جس نے فوج کے خلاف نئی صلیبی جنگ چھیڑی تھی۔اس طبل جنگ کے بعد فوج خم ٹھونک کر میدان میں کھڑی ہو گئی تھی مگر لگتا ہے کہ اب نیا میدان سجنے کو ہے، سرنڈر کا طعنہ یہ ٹیسٹ کرنے کے لئے تھا کہ کیا کوئی فوج کے ساتھ کھڑا ہے یا نہیں اور جب اندازہ ہو گیا کہ قوم اس مسئلے پر تقسیم ہے اور ملک کی ایک پرانی اور بڑی پارٹی ہونے کے ناطے پیپلز پارٹی نیمے دورں نیمے بروں کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے تو اب فوج کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی تیاری نظرا ٓتی ہے۔یہ ایک نئی یلغار ہے۔؎
بلوچستان اسمبلی فوج کے حق میں قرارداد لانے میں پیش پیش رہی، خیبر پی کے اسمبلی نے بھی قرارداد منظور کر لی، سندھ اسمبلی نے ایسی قرارداد پیش کرنے کی منظوری نہیں دی اور پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی ایک مسودہ پیش کر چکی ہے۔میرے خیال میں آزادکشمیرا ور گلگت بلتستان کو بھی ایسی قراردادیں منظور کر نی چاہئیں تاکہ فوج کے نقادوں کے منہ بند ہو سکیں اور اگر فوج کے پاس بھی پراپیگنڈہ کی کوئی مشینری ہے اور اس میں مجھے کوئی شک نہیں کہ اس کام کے لئے اکیلے میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کافی ہیں، انہیں اس صورت حال کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے، دنیا کے کسی ملک میں اپنی فوج کے خلاف شب و ستم سننے میں نہیں آتا، مگر یہاں تو ہر ایک کا منہ کھلا ہے۔اور گالی گلوچ کے بعد معذرت سے کام چلایا جاتا ہے۔
تو آیئے الیکشن دھاندلی کا قصہ بھی ایک معذرت پر ختم کر لیں، ہم نے دیکھ لیا کہ کراچی کے ضمنی الیکشن میں ایم کیو ایم ہی جیتی اور لاہور میں بھی دوبارہ ووٹنگ کی نوبت آئی تو سعد رفیق ہمیشہ کی طرح ریلوے پر سوار رہیں گے۔پی ٹی آئی اس وقت شاداں و فرحاں دکھائی دیتی ہے، جشن منائے جا رہے ہیں، مٹھائیاں بانٹی جا رہی ہیں۔یہ پی ٹی آئی کی پہلی فتح ہے اور حکمران جماعت کی ایک اینٹ نہیں گری بلکہ قلعے کا ایک برج چکنا چور ہو گیا ہے، سعد رفیق بہت اچھلتے تھے ، اچھل تو اب بھی رہے ہیں اور فیصلے کے اندر سے فیصلہ تلاش کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ غلطی کسی کی،سزا کسی کو، مگر وہ بھول گئے کہ پی ٹی آئی کا الزام ہی یہ تھا کہ دھاندلی الیکشن کے عملے کے ذریعے کروائی گئی، ایک ایک آدمی نے چھ چھ ووٹ بھگتائے، سعد رفیق کہتے ہیں یہ غلطی تو ووٹروںنے کی، باکل ٹھیک کہتے ہیں، ووٹروںنے دھاندلی کی اور سزا ریلوے منسٹر کو،دھاندلی کرنے والوں کو کھلی چھٹی دی الیکشن عملے نے، پریذائیڈنگ اور ریٹرننگ افسروں نے اور سزا پھر ریلوے منسٹر کو، ریلوے منسٹر کا کیا تعلق الیکشن کمیشن کی کارکردگی سے۔ جیسے ریلوے کے ملازم تنخواہ اپنے محکمے سے لیتے ہیں اور ڈیوٹی کہیں اور دیتے ہیں۔بعض کی ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو مغلظات کا نشانہ بناتے رہیں، اب وہ خود نشانہ بن گئے ہیں،الزام ان کو دیتے تھے ، قصور اپنا نکل آیا۔
میرے نزدیک یہ دھاندلی نہیں، دھاندلا ہے ا ورا س کا آغاز اس لمحے ہو گیا تھا جب الیکشن کے بعد رات کے ساڑھے گیارہ بجے نواز شریف نے وکٹری تقریر کر دی تھی، اس وقت تک کسی چینل پر تین فی صد سے زیادہ نتائج نہیں آئے تھے مگر نواز شریف نے سوئے ہوئے ووٹروں سے کہا تھا کہ وہ انہیں دو تہائی اکثریت دلوائیں اور یہ کام ووٹر تو کر نہیں سکتے تھے، وہ تھک ہار کر سو گئے تھے، یہ نیک کام چند نیک روحوں نے انجام دیا، اس ملک میں ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے، الیکشن تو سار ا دن چلتا ہے دنیا کی آنکھوں میں دھول بھی تو جھونکنا ہوتی ہے مگر الیکشن کا نتیجہ انجنیئرڈ کیا جاتا ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو تو ایک بارا س پر بلبلا اٹھی تھیں مگر اب ان کے شوہر نے مک مکا کر لیا ہے، والد نے کہا تھا،ا دھر تم،ادھر ہم ، شوہر نامدار نے کہا، ایک بار تم ، ایک بار ہم۔سودنیا ادھر سے ادھر ہو جائے انہیں الیکشن کے نتائج سے کوئی غرض نہیں ، بس کسی دن سیاسی بحران کھڑا ہو جائے تو میدان میں آ دھمکتے ہیں کہ غیر جمہوری قوتوں کو کھل نہیں کھیلنے دیں گے۔ یہ غیر جمہوری قوتیں کھل کھیلنے جوگی ہی نہیں رہ گئیں ، بارہ برس سے دہشت گرد ان کی دھلائی کرر ہے ہیں ، اب رہی سہی کسر سیاستدان پوری کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔فوج کو تو قربانی کا بکرا سمجھ لیا گیاہے اور سیاستدان دودھ پینے والے مجنوں اور نوزائیدہ اینکروں اور دانش وروں کا لشکر ان کے میمنہ اور میسرہ پر۔یہ ٹوئٹر پر ٹوٹ پڑے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ غدار کون ہے اور غدار کی حفاظت کون کرر ہا ہے۔
کیا یہ بلیم گیم صرف معذرتوں سے ختم ہو سکتی ہے اور اگر غداری کے الزامات پر مٹی ڈالی جا سکتی ہے تو پھر الیکشن دھاندلی پر بھی ایک چھوٹی سی، سرسری سی، نحیف سی معذرت سے کام چلا لیا جا ئے تو چلئے ایسے ہی سہی، پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے۔
کالم میں شعرو شاعری کے استعمال کو میں جائز نہیں سمجھتا، مگر آج اپنی عادت کے برعکس ایک پوری کی پوری نظم پیش خدمت ہے۔
میںنے ہی ٹھیک سے نہ سنی معذرت
بات سمجھا نہیںآپ کی ، معذرت
ہو گئی ہے پرانی بہت دن ہوئے
اس کو کرنی پڑے گی نئی معذرت
تم جو کہتے ہو تو ہم کئے دیتے ہیں
ہم نے کی تو نہیں ہے کبھی معذرت
اس کے دل میں ہے کینہ، مجھے ہے پتہ
کر گیا تھا یوںہی سرسری معذرت
ایسے نازک مزاجوں سے دوری بھلی
کون کرتا رہے ہر گھڑی معذرت
لو میاں ہم تو اب اس جہاں سے اٹھے
تم نہ مانے تو ہے آخری معذرت
پہلے توڑیں گے دل اس کا اچھی طرح
پھر کہیں گے کہ ہے دل لگی ، معذرت
وہ تو سنتا نہیں ہے کسی کی صبا
رہ گئی ہے دھری کی دھری معذرت
اس معذرت نامہ کے تخلیق کار ہیں عوامی شاعر محمد سبگتگین صبا، ان سے علیک سلیک فیس بک کے ذریعے ہوئی ہے۔اس کے کئی مصرعے آپ کے کام آئیں گے کئی مواقع پر! مگرقومی منظر نامے میں تو حسب حال اور تیر بہدف ہے۔