موسم گرما کی تپتی اور جھلسا دینے والی دھوپ نے ابھی ڈیرے نہیں ڈالے اور نہ ہی یہ کہہ سکتے ہیں کہ گرمی نہیں گو کہ موسم گرما شروع ہو چکا ہے لیکن درجہ حرارت ابھی اتنا نہیں بڑھا ،ہاں البتہ گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جس وجہ سے شدت کی پیاس کے دوران ٹھنڈے مشروبات اوربرف کے بلاک پر کٹے ہوئے ٹھنڈے پھل بالخصوص گنڈیریاں، تربوز،کھانے کو بہت جی چاہتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب اسکول سے چھٹی ہوتی ہے اور شدت کی پیاس محسوس ہوتی ہے تو راستے میں برف کے بلاک پر کٹا ہوا تربوزیا ٹھنڈے مشروب کی ریڑھی دیکھ کر منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ اپنی پیاس بجھانے کے لئے کئی بچے تربوز کی ریڑھی کے اردگرد کھڑے ہو کر بے چینی سے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں اور خوب سیر ہو کر تربوز کھاتے ہیں یقیناً اس وقت شدت کی پیاس کی وجہ سے اس کا ذائقہ اچھا لگتا ہے۔ لیکن یہ دیکھنا اور سوچنا بھی ضروری ہے کہ کٹا ہوا پھل جس پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں اور ارگردکی گردوغباراس پر پڑرہی ہے جو صحت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے ۔ صرف یہی نہیں کالا دھواں چھوڑتی گاڑیاں ان پھلوں پر مضراثرات چھوڑتی ہیں۔ یہ وہ موسم ہے جب ٹھنڈے مشروبات،مثلاً برف کے گولے قلفی اور بازاری شربت ،ستو،گنے کا رس پینے کو بہت جی چاہتا ہے،اس موسم میں ریڑھیوں کی چاندی ہوتی ہے۔غیر معیاری قلفیاں اور ٹھنڈے مشروبات برف کے گولے پر پڑنے والی گردو غبار صحت کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ جب موسم بدلتا ہے تو گلے اور پیٹ کی بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں ، ہماری ذراسی لا پروائی بیماری کا باعث بنتی ہے۔ یہی اشیا ہم گھر پر بھی توبنااور کھا سکتے ہیں۔
اچھی اور خوشگوار زندگی گزارنے کے لئے اچھی صحت کے ساتھ ساتھ اچھا دماغ یعنی بچوں کا ذہین ہونا بھی لازمی ہے۔ دماغ پورے جسم کا کمانڈر یا کپتان ہوتا ہے جسم کا ہر اعضاءدماغ کا مرہون منت ہے۔ اگر جسم کمزور ہوجائے یا کوئی بیماریاں حملہ آور ہوں تو کوئی چیز بھی اچھی نہیں لگتی طبیعت میں چڑ چڑاپن پیدا ہو جاتا ہے۔ جسم کو صحت مند رکھنے کے لئے کوئی خاص محنت نہیں کرنا پڑتی بلکہ احتیاط ضروری ہے۔بازاری اور غیر معیاری اشیا اور وقت بے وقت کھانے سے صحت کا گراف گرتا جاتا ہے ،رواں موسم میں، ذرا سی لاپروائی برتنے سے انسان بیمار ہو جاتا ہے۔ جسم کو چاق و چوبند رکھنا آپ کے اختیار میں ہے جسم چاق و چوبند ہو گا تو ذہن بھی خوب کام کرے گا صحت مند رہنے کے لئے سادہ غذا سبزیاں اور موسمی پھل کھانے چاہئےں اور غیر معیاری اشیاءسے پرہیز کرناچاہئے ۔
موسم گرما شروع ہو چکا ہے لیکن وہ شدت کی گرمی جوکہ ماہ جون میں پڑتی ہے ابھی نہیں۔گرمی پڑتی ہے تو ضرورت سے زیادہ ٹھنڈے مشروبات پینے کو بہت جی چاہتا ہے جوں جوں گرمی بڑھتی جائے گی پیاس کی شدت بھی بڑھتی جائے گی،ایسے میں ننھے منھے دوست جو زیر تعلیم ہیں سکولوں میں ہاف ٹائم میں کھانے کی چیزیں کم مشروبات کو ترجیح دیتے ہیں اور پلک جھپکتے ہی ایک ہی سانس میںگلاس خالی کر دیتے ہیں رنگ برنگے برف کے گولے مزے لے لے کر چوستے ہیں کیا آپ جانتے ہیں کہ برف کے گولے کس سے بنتے ہیں؟ ظاہری بات ہے کہ برف کو کرش کر کے ایک سانچے میں ڈال لیا جاتا ہے پھر اس پر محتلف قسم کے رنگ ڈال دیئے جاتے ہیں،اس طرح برف کا گولاخوبصورت شکل اختیار کر جاتا ہے،بازاری برف صحت کے لئے مضر ہے اس کی تیاری کے لئے پانی کو ایک بڑے سے سانچے میں ڈال دیا جاتا ہے،اور اسے مخصوص ٹیمپریچر میں بنایا جاتا ہے،کیا یہ پانی بوائل شدہ ہوتا ہے؟اگر برف کو غور سے دیکھیں تواس میں چھوٹے چھوٹے ذرات دکھائی دیتے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہےں کہ پانی فلٹر نہیںکیا گیا۔ماہرین کے مطابق پانی بوائل کر کے پینا چاہئےے ہم گھروں میں مینرل واٹریا پانی بوائل کر کے پیتے ہیں لیکن کارخانوں کی بنائی ہوئی برف کسی جگہ سے وائٹ اور کسی جگہ سے ٹرانسپیرنٹ ہوتی ہے جب برف پگلتی ہے تو اس میں چھوٹے چھوٹے ذرات دکھائی دیتے ہیں کیونکہ زیادہ تر کارخانوں کے مالکان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے۔
ضرورت سے زیادہ ٹھنڈا پانی یا برف کے غیر معیاری اوربازاری اشیا سے بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ د وسری طرف برف کے گولے پر ڈالا جانے والا رنگ کسی طور پر بھی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہوتا۔ماہرین کے مطابق سرخ رنگ صحت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے برف کے گولے پر ڈالے جانے والے رنگوں کا کوئی برانڈ نہیں ہوتا اور یہ گھر پر ہی بنائے جاتے ہیں آج کل گلے کی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ جب گرمی بڑھنے لگتی ہے تو ہم احتیاط سے کام لینے کی بجائے غیر معیاری آئس کریم، برف کے گولے اور بازاری شربت کو پسند کرتے ہیں اگر اچھی صحت چاہتے ہیں تو غیر معیاری اشیاءجن کا کوئی برانڈ نہیں ہوتا انہیں ترک دیں۔ گرمیوں کے موسم میں قلفیاں بھی بڑے زوق و شوق سے کھائی جاتی ہیں۔ قلفیاں اوربرف کے گولے بنانے کا عمل ملتا جلتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ برف بنانے کے لئے سانچوں میں پانی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ قلفیاں بنانے کے لئے دودھ استعمال ہوتا ہے۔ آج کل ویسے بھی دودھ خالص نہیں ملتا تو قلفیاں کس طرح خالص بن سکتی ہیں ظاہر ہے اس کے لطف کو دوبالا اور دودھ کوگاڑھا کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی کیمیکلز تو ڈالتے ہوں گے جس سے اس کا ذائقہ اچھا لگتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سکول ہاف ٹائم کے اوقات میںکیاپیا جائے ، اس کے لئے بہتر تویہی ہے کہ گھر سے ٹھنڈا مشروب لے کر ہی جایا جائے اس سے آپ کی صحت اچھی رہے گی۔صحت مند رہنے کے لئے اپنی صحت کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے غیر معیاری آئس کریم، بازاری شربت اور قلفیوں سے پرہیز کیجئے۔
خدا کے بندوں سے پیار کرنا
اقبال نے فرمایا کہ خدا کے بندے تو ہزاروں کی شکل میں جنگلوں اور بیانانوں میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ دنیا چھوڑ کر خدا کی تلاش میں رات دن مست ہیں میں بھی خدا کا بندہ ہوںلیکن میں جنگلوں کی بجائے دنیا میں ان بندوں کو تلاش کرتا ہوں جو انسانیت کی خدمت کرتے ہیں میں اس آدمی کا خادم بنوں گا جو اللہ کے بندوں سے پیار کرتا ہے
خدا کے عاشق تو ہیں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
محمد رمضان گوہر (بانگ درا)