آمنہؓ کے لعل نے لوگوں کو اصال الیٰ المطلوب تک پہنچا کر فرمایا: اِن اَجرِی اِلاّعَلَی اللہ۔ اے لوگو! میں اس دعوت کے بدلے تم سے کچھ نہیں مانگتا۔ میرا اجر تو صرف اللہ تعالیٰ کے ہاں سے ہے یہی راستہ مدارس کے منتظمین نے اپنا رکھا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں جب دو وقت کی روٹی نہ ملنے کے باعث لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں علماء کرام ہزاروں مہمان رسول کی میزبانی فرما کر کہتے ہیں۔ اِن اَجرِی اِلاّعَلَی اللہ۔ اس سے آپؐ کے فرمان العلماء ورثۃ الانبیاء کی حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے علماء کرام آج بھی منبر و محراب میں کھڑے ہو کر کہتے ہیں ہمارا اجر، ہمارا بدلہ اور ہماری مزدوری اللہ کے پاس ہے انکے دلوں میں عشق مصطفی موجزن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب انسان کے اندر سے عشق کی آگ بجھ جائے تو وہ راکھ کا ڈھیر بن کے رہ جاتا ہے۔ اسکی رگوں میں دوڑتے لہو کی ساری حرارت ختم ہو جاتی ہے۔ اسکے عزم جواں کو وسوسوں کا آسیب اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور وارثان منبر و محراب مصلحت کشی کے مبلغ بن جاتے ہیں۔ لیکن جب عشق کی آگ نے دل میں بھانبڑ مچا رکھا ہو تو پھر بیورو کریٹ بھی علماء کی صف میں مستقل کھڑے نظر آتے ہیں۔ مرکز تجلیات الشیخ سید علی بن عثمان ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار اقدس کے زیر سایہ دینی و عصری علوم سے مزین جامعہ ہجویریہ میں ختم بخاری شریف کی تقریب میں جا کر آنکھیں کھلیں کہ محکمہ اوقاف پنجاب کے تحت چلنے والے مدرسے میں علوم نبوت کی تعلیم کا معیار کسی بھی پرائیویٹ تعلیمی ادارے سے کم نہیں ہے۔ مرکز تجلیات کے اردگرد کبوتر پھڑ پھڑا رہے تھے اور مجھ پر حیرتوں اور معجزوں کے باب کھل رہے تھے۔ قرون اولیٰ سے مدرسہ اور خانقاہ لازم ملزوم ہیں۔ مدرسے میں تعلیم اور خانقاہ میں تربیت سے طالبعلم سچے موتی کی شکل اختیار کر لیتے تھے لیکن بدقسمتی سے اولیاء کرام اور صوفیا عظام کے آستانوں اور خانقاہوں کے ساتھ دینی تعلیم کے مراکز کی روایت ختم ہو چکی ہے لیکن داتا کی نگری میں محکمہ اوقاف پنجاب کی شبانہ روز کی محنت سے تعلیم کا چراغ جل رہا ہے۔ انتہاء پسندی، فرقہ واریت اور تعصب سے پاک مرکز معارف اولیاء اور جامعہ ہجویریہ کے قیام کا کریڈٹ شفیق حسین بخاری سابق سیکرٹری اور ڈاکٹر طاہر رضا بخاری ڈی جی اوقاف پنجاب کو جاتا ہے۔ سال 2002ء میں ادارے کی تنظیم نو کے بعد حفظ سے لیکر دورہ حدیث اور تخصص فی الفقہ تک تعلیم کا تسلسل سے جاری رہنا اساتذہ کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے جامعہ ہجویریہ کے پرنسپل علامہ بدر الزمان قادری نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر مدارس کا کنٹرول محکمہ اوقاف پنجاب کو دے دیا جائے تو اوقاف بہتر طریقے سے انھیںچلا سکتاہے۔ جامعہ ہجویریہ میں اس وقت 400 طلباء زیر تعلیم ہیں جس میں سے 67 دورہ حدیث جبکہ 15 طلباء تخصص فی الفقہ کر رہے ہیں مفتی گل احمد، مفتی محمد صدیق ہزاروی اور خطیب داتا دربار مفتی رمضان سیالوی جیسے جید اساتذہ جامعہ ہجویریہ میں پڑھاتے ہیں۔ جامعہ کاسالانہ بجٹ 14 لاکھ روپے ہے جبکہ 12 لاکھ روپے سالانہ وظائف کے علاوہ کتابیں یونیفارم جوتے، سویٹر، ٹوپی اور رومال بھی محکمہ اوقاف پنجاب کی طرف سے طلباء کو مفت مہیا کئے جاتے ہیں۔ جبکہ عصری علوم اور تنظیم المدارس میں پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء کو ایک لاکھ روپے کے انعامات الگ سے دیئے جاتے ہیں۔ دسمبر 2015ء میں صاحبزادہ شہر یار سلطان سابق سیکرٹری اوقاف اور ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری ڈی جی اوقاف نے جامعہ میں کمپیوٹر لیب، لینگوئج اور موبائل کے سوفٹ ویئر کی کلاسز شروع کروائی تھیں جس سے مہمان رسول دلجمعی سے استفادہ کر رہے ہیں۔ جامعہ ہجویریہ، یونیورسٹی آف پنجاب، جامعہ منہاج اور جی سی یونیورسٹی کے طلباء کے مابین مختلف موضوعات پر مباحثہ کرواتا ہے جبکہ جامعہ ہجویریہ کے طلباء کو مختلف تعلیمی و تفریحی دوروں پر بھی لیجایاجاتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر رضا بخاری ڈی جی اوقاف نے طلباء کے وظائف کو 6 لاکھ سے بڑھا کر 12 لاکھ اور پرنسپل کی پوسٹ کو اپ گریڈ کر کے 17 سکیل میں کیا ہے۔ جو ان کی علوم نبوت سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے اس سے نہ صرف جامعہ کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے بلکہ طلباء مزید خوشدلی سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سیکرٹری اوقاف نیئر اقبال اور ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کی سرپرستی میں جامعہ ہجویریہ جس انداز سے ایک ماڈل مدرسے کا منظر پیش کر رہا ہے اس طرح دیگر مدارس میں بھی نظام تعلیم ہونا چاہیے۔ حکومت پنجاب نے ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کیلئے جن نام نہاد ’’صوفیوں‘‘ کو رہبر تسلیم کئے رکھا وہ تو این جی اوز کے بیانات کے شگوفوں سے خوشبوئیں کشید کرنے کے فن کے سوا کچھ جانتے ہی نہیں تھے لیکن حکومت پنجاب نے اس بل پر پے در پے پیش آنے والی ہزیمتوں کو حکمت کاری کی قبائے رنگین پہنانے کی کوشش کی۔ اس بل کی حدت سے مذہبی رہنمائوں کی روحیں تک پگھلنے لگی تھیں تب حکومت بے چارگی کے عالم میں اس سے پسپا ہوئی اور ابھی تک لڑ کھڑارہی ہے کاش رانا ثناء اللہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب شروع سے ہی محکمہ مذہبی امور اور ماڈل مدارس کا نظام چلانے والے بیورو کریٹ سے رابطہ کر کے اس بل کو اسمبلی میں لاتے تو انھیںکسی ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ خادم پنجاب میاں شہباز شریف کے والد محترم میاں شریف مرحوم کا مزارات اور خصوصی طور پر داتا دربار سے جو تعلق تھا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ لہٰذا میاں شہباز شریف سیکرٹری اوقاف اور ڈی جی اوقاف کی علم دوستی سے فائدہ اٹھا کر پنجاب بھر میں موجود محکمہ اوقاف کے زیر انتظام مزارات کیساتھ ایسے ہی ماڈل مدارس قائم کر کے انتہاء پسندی، فرقہ واریت اور مذہبی تعصب کے خاتمے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔اس سے ایک طرف انتہا پسندی کے سامنے بند باندھا جا سکے گا دوسری طرف طلبا ء کو بہتر تعلیمی سہولیات بھی مل سکیں گی اور انکی تعلیمی اسناد کے بارے اٹھنے والے شور شرابے کا بھی خاتمہ ہو سکے گا ،
سید ہجویرؒ کی جامعہ ہجویریہ
May 06, 2016