روایت ہے کہ ایک مرتبہ تین درویش سفر پر جا رہے تھے کہ انہیں پہاڑی پر رات بسر کرنا پڑی- رات کے پہلے پہر قافلے کے امیر نے دیکھا کہ دوسرا ساتھی فقیر کروٹیں بدل رہا ہے اور نیند سے بیزار ہے جس پر میرِ قافلہ نے اُس سے بے چینی کی وجہ پوچھی - جواب ملا کہ کوئی خاص بات نہیں ، ایسے ہی اُس کی نیند اکھڑگئی ہے- رات کے دوسرے پہر بھی میرِ قافلہ نے ساتھی درویش کی بے چینی دیکھ کر تلملاہٹ کی وجہ دریافت کی لیکن جواب پھر وہی ملا کہ کسی وجہ سے نیند اکھڑ چکی ہے اورکوئی خاص وجہ نہیں ہے - شب گزری اور رات کے آخری پہر بھی میرِ قافلہ اور دوسرے ساتھی فقیر نے دیکھا کہ وہی ساتھی فقیر نیند کی بیزاری میں مبتلا ہے حتی کہ اٹھ کر بیٹھ گیا ہے جس پر میرِ قافلہ نے فقیر سے دریافت کیا کہ اُسکے پاس کونسی ایسی چیز ہے جو اُسے تنگ کر رہی ہے - ساتھی فقیر نے میرِ قافلہ کی طرف دیکھتے ہوئے عرض کیا کہ اُسے راستے میں سفر کے دوران سونے کے چند سکے ملے ہیں جو اُس نے چھپا کر اپنے پاس رکھ لیئے ہیں اور جب سے سکے اُسکے ہاتھ لگے ہیں وہ انکی حفاظت اور تصرف کے لیئے ایک عجیب بے چینی کی کیفیت سے گزر رہا ہے اُسکی نیند ہی غائب ہو چکی ہے میرِ قافلہ نے چند لمحات کیلئے سوچا اور پھراُسے فوراً سکے پھینک دینے کی تلقین کی - فقیر چند لمحات کیلئے تذبذب کا شکار ہوا لیکن بالا ٓخر اس نے جیب سے سکے نکال کر پوری قوت سے پہاڑی سے نیچے پھینک دیئے اور لیٹ گیا - لیٹتے ہی وہ نہایت میٹھی اور گہری نیند میں محو ہوگیا-
ایک معروف نجی کلب میں ایک مشہور مذہبی سکالر کی تازہ شائع شدہ کتاب پر منعقد کی گئی ایک فکری نشست میں شرکت کا اتفاق ہوا- معروف سینئر صحافی خالد یزدانی، خالد رسول، علی عباس، گل نوخیز اختر اور دیگر اہم سماجی و ادبی شخصیات بھی موجود تھیں- حاضرینِ محفل نے مہمانِ خصوصی کو اُنکی تازہ کتاب شائع ہونے پر مبارک باد پیش کی- فکری بحث جائز ستائش و تحسین کے ساتھ ساتھ مثبت تنقید کے خم و پیچ میں داخل ہوگئی اور روحانیت کے موضوع پر مختلف خیالات اور تاثرات کھل کر سامنے آئے-خاکسار نے صاحبِ کتاب کے ٹی وی پر مذہبی پروگرام کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انکا پروگرام عوام میں نہایت مقبول ہے اور مایوس اور دکھی انسانیت اُس سے روحانی اور نفسیاتی فیض حاصل کرتی ہے جس پر موصوف نے حیرت انگیز طور پر کہا کہ ان کا پروگرام نہایت کمرشل ہے جس کی بنیاد یںریٹنگ سسٹم پرکھڑی ہیں - مزید حیران کن کہ عوام اخلاقی طور پر کھوکھلے ہوچکے ہیں کہ وہ رات کے اخری پہر ٹی وی کا بٹن دبا کر تہجد کی نماز پڑھنے کی بجائے میرا پروگرام دیکھنا شروع کر دیتے ہیں - موصوف سے دریافت کیا گیا کہ کیا اُنکا پروگرام روحانی نہیں ہے اوردکھی اور خودکشیوں کی طرف مائل لوگ اُنکے پروگرام کی وساطت سے قرآن و حدیث کے ذریعے امید کی کرن حاصل کرتے ہیں اور نئی پُر امید زندگی میں قدم رکھنے کے قابل ہوتے ہیں تو یہ بھی اللہ کی طرف رجوع کرنے کا سبب نہیں ہے جس پر موصوف خاموش ہوگئے- گل ِنوخیز اختر نے موصوف سے سوال کیا کہ وہ اپنے پروگرام میں کیونکر کسی سوال کرنے والے شخص اور اُسکی والدہ کا نام پوچھ کر اور کشف القبور کے ذریعے بتلا دیتے ہیں کہ مرنے والا قبر میں کس حالت میں ہے۔ جس پر موصوف نے Meditation یا کسی مسئلے پر غور کے ذریعے حل تلاش کرنے کے عمل کا سہارا لیا اور کہا کہ یہ ایک ٹیکنالوجی ہے جسے ہندو مذہب میں سب سے زیادہ استعمال کیا گیا ہے - خاکسار نے موصوف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ Meditationمحض ٹیکنالوجی نہیں ہے بلکہ علم کے ذرائع جن میں عقل وجدان، حواس خمسہ ، خواب اور وحیّ شامل ہیں میں سے ایک ہے- جو کبھی کامیاب اور کبھی ناکام ہوتا ہے- یہی صورتحال وجدان، حواسِ خمسہ اور خواب کے ساتھ ہے ہاں وحیّ ایک حتمی ، یقینی اور دوٹوک علم کا ماخذ ہے جو انسان کو اُس کے مذہبی ، روحانی اور روزمرہ کے مسائل کامکمل حل پیش کرتا ہے- موصوف نے وسوسہ کوایک منفی کیفیت ماننے سے اختلاف کیا اور صوفیا ئے کرام کے افکار ، ِ روحانیت اور تبلیغ کو محض شاعری اور ادب گردانا اور انہیں روحانیت سے علیحدہ موضوع قرار دیا- حتی کہ سلطان باہو جیسے کئی مستند بزرگانِ دین کی بنیادی خصوصیات یعنی روح میں ضم ہونے کی تڑپ، خلقِ خدا سے محبت اور اپنی ذات کی نفی کی تصدیق چاہی- خاکسار نے موصوف سے دریافت کیا کہ کیا آج صوفی ختم ہوگئے ہیں اور کیاروحانیت کا پرچار کرنیوالے آج کے دیگر فقیربھی کمرشل ہیں جس پر فورا ہاں میں جواب ملا اور وہ اپنے تئیں بھی کمرشل رہنما اعتراف کرتے نظر آئے- خاکسار نے اُنکے خیالات کو نرم انداز میں رقم کرنے کی اجازت چاہی تو موصوف نے نرم کی بجائے سخت الفاظ استعمال کرنے کی اجازت دی - بعدازاں کتاب کے مدیر وضاحت پر انہوں نے بھی واضح انداز میں نہ صرف اُنکے کام بلکہ انکی تازہ کتاب کو روحانی نہیں بلکہ کمرشل ہی اقرارکیا اور قابلِ تحسین ہے کہ انہوں نے اخلاقی جرأت کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ ان تمام باتوں کا ذکر ان کی کتابوں میں بھی ہے - جس سے خاکسار کے ذہن میں اپنے شائع شدہ کالم" فیض برائے فروخت ہے "کی یاد تازہ کردی - روحانیت اور صوفی ازم کے نام پرمنعقد ہونے والی کئی محفلیں منظرِ عام پر آتی ہیں- خاکسار اپنی کم علمی کی وجہ سے حقیقی اور بناوٹی صوفی میں فرق واضح کرنے سے قاصر ہے لیکن اتنا ضرور جانتا ہے کہ حقیقی صوفی ذاتِ خداوندی میں ضم ہونے، اپنی ذات کی نفی کرنے اور خدمتِ خلقِ خدا میں ہی اپنی بقاء اور پرواز سمجھتا ہے- رابعہ بصریـ جیسے فقیروں کی طرح وہ تو دنیا میں اوپر ذکر کیئے گئے درویش کی طرح شہرت ، مال اور دولت کو پہاڑ سے نیچے پھینک کر فقط معرفت ِ الٰہی کا متلاشی ہوتا ہے۔ وہ تو دنیا و آخرت میں اللہ کے ساتھ محبت کے صلہ میں کسی انعام اور باغِ بہشت کی پکار کی بجائے محض معرفتِ الٰہی اور پہچان کو اپنا نگینہ سمجھتا ہے کیونکہ اُس کیلئے کمرشلزم میں نہیں بلکہ اللہ کا ولی اور دوست ہونے میں ہی سب کچھ ہے۔
اُسکی محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اُس کے طغیانی دل کے اندر ہی ہوتا ہے، جسے وہ کسی تغیانی کی صورت میں بھی باہر آنے سے پوری طاقت سے روکنے کی کوشش کرتے اس حد تک اپنے اندر جذب کرلیتا ہے کہ دنیا اسے مجذوب کہنا شروع کر دیتی ہے- ہم کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے قاصر ہیں لیکن لمحہء فکریہ یہ ہے کہ آج کا صوفی بآسانی اپنے من میں جھانکتے ہوئے یقین کی دولت سے مالا مال ہوسکتا ہے کہ اس کے عشق کا سمندر اسکے دل کے اندرہی ہے-
عشق سمندر دل دے اندر!
May 06, 2016