ایبٹ آباد/ لاہور (اے ایف پی+ نیٹ نیوز+ خصوصی رپورٹر) ایبٹ آباد کے نواحی علاقے مکول میں سہیلی کو اس کے آشنا کے ساتھ فرار ہونے میں مدد دینے کے الزام میں جرگہ کے حکم پر 20 سالہ عنبرین کو نشہ آور دوا پلا کر گلا گھونٹ کر قتل کر کے اسکی نعش جلا دی گئی۔ پولیس کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کی اس سنگین واردات میں ملوث 14 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ 29 اپریل کو جرگہ کے حکم پر ایک سوزوکی وین میں اسکی نعش نذر آتش کی گئی۔ ثبوت مٹانے کیلئے نعش کو سلنڈر پر رکھ کر آگ لگائی گئی مگر سلنڈر نہ پھٹ سکا۔ پولیس کے مطابق جرگہ کے فیصلے کا ساتھ دینے پر لڑکی کی والدہ شمیم بی بی کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں گائوں کا ناظم پرویز شامل ہے۔ انسداد دہشت گردی عدالت نے 14 گرفتار ملزموں کو قتل اور دہشت گردی کے الزامات کے تحت 14 دن کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ ایبٹ آباد کے ضلعی پولیس افسر خرم رشید نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ اس واقعے میں ملوث 16 میں سے 14 ملزموں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، دو کی گرفتاری کے لئے چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ملزموں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے انہیں ’سی ٹی ڈی‘ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ ضلعی پولیس افسر نے واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ عنبرین گاؤں سے کچھ عرصہ قبل فرار ہونے والی صائمہ نامی لڑکی کی سہیلی اور رازدار تھی۔ ان کے مطابق صائمہ کے فرار کے بعد علاقہ کے ویلج کونسل ناظم پرویز نے جرگہ کیا جس میں فرار میں مدد دینے والے مفرور شخص صدیق کی گاڑی کو جلانے اور عنبرین کو ہلاک کرنے کا فیصلہ دیا گیا۔ ناظم پرویز نے 15 افراد پر مشتمل جرگہ کر کے قتل کا فیصلہ سنایا جس کے بعد لڑکی کو پہلے دوپٹہ گلے میں ڈال کر پھندا لگایا گیا، بعدازاں نعش کو گاڑی میں سیٹ کے ساتھ باندھ کر گاڑی کو سلنڈر کے ذریعے آگ لگا دی گئی۔ تھانہ ڈونگا گلی کے انچارج نصیر خان نے بتایا کہ واقعے کے ثبوت مٹانے کے لیے جلائی جانے والی گاڑی کے ساتھ کھڑی دیگر دو گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا گیا۔ مکول کی مقامی پولیس کے اہلکار کا کہنا ہے کہ عنبرین کی والدہ کی گرفتاری اس وجہ سے عمل میں آئی کہ وہ جرگے کی جانب سے اپنی بیٹی کے خلاف کارروائی کے بارے میں علم رکھتی تھی تاہم اس نے اسے رکوانے کے لیے پولیس سے رابطہ نہیں کیا۔ خیال رہے کہ قتل کی جانے والی لڑکی کے والد روزگار کی غرض سے کراچی میں مقیم ہیں۔ صوبائی حکومت کے حکم پر واقعے کی تحقیقات کے لیے تین ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ خیبر پی کے کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔ صوبائی حکومت کے ترجمان مشتاق غنی نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے انہیں حکومت کی جانب سے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ نجی ٹی وی کے مطابق 7 روز قبل گاڑی سے ایک لڑکی کی نعش ملی جس کی تفتیش کی جارہی تھی۔ دوران تفتیش پولیس پر انکشاف ہوا کہ عنبرین کو جرگہ کے فیصلے پر گاڑی میں ڈال کر جلایا گیا تھا۔ پولیس نے عنبرین کی والدہ کے موبائل فون کا ڈیٹا حاصل کر کے واقعہ کی تفتیش کی جا رہی ہے۔ لاہور سے خصوصی رپورٹر کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے ایبٹ آباد میں لڑکی کے قتل اور نعش کو زندہ جلائے جانے کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے لڑکی کے لواحقین سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف نے کہا کہ یہ ایک اندوہناک واقعہ ہے کسی معاشرے میں ایسے دلخراش واقعہ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ واقعہ میں ملوث ملزم کڑی سے کڑی سزا کے حقدار ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق عنبرین کے کیس میں لرزہ خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔ سزا جعلی اور غیرقانونی جرگہ نے سنائی جس میں بدمعاش اور لفنگے افراد شامل تھے۔ پچھلی سیٹ پر جلانے کا مقصد سلنڈر دھماکہ ثابت کرنا تھا، ماں نے بیٹی کو خود جرگے کے حوالے کیا۔ عنبرین کے والد نے مطالبہ کیا ہے کہ جیسے میری بیٹی کو جلایا گیا ایسے ہی ملزموں کو جلایا جائے۔ غریب آدمی ہوں، حکومت انصاف دے۔