قارئین کرام! صحت انسان کے اُن بنےادی حقوق میں سے ایک ہے جن کو بین الاقوامی طور پر بہت اہم مانا گےا ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک نے اپنے عوام کی صحت بہتر سے بہتر بنانے پر ہرگاہ توجہ دی مگر بدقسمتی سے پاکستان اس معاملے میں ترقی پذیر ملکوں میں بھی پچھلی صفوں میں کھڑا ہے اور صحت کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کے لحاظ سے دنےا میں 119ویں نمبر پر ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم صوبہ ہے اوراس سب سے بڑے صوبے کی بہت زیادہ آبادی کوصحت کی سہولےات بہم پہنچانے کیلئے حکومت پنجاب کی طرف سے پنجاب بھر میں تقریباً بیس سپیشل ہسپتال، سینتیس ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال، سو سے زائد سب ڈویژنل ہیڈکوارٹر ہسپتال اور دس ہزارکے قریب دیہی ڈسپینسریاں ہیں۔ جن میں مجموعی طور پر اندازاََ دو ہزار ڈاکٹرز تعینات ہیں اور پچاس ہزار پیرامیڈیکل سٹاف اور اِتنے ہی درجہ چہارم کے ملازمین کام کرتے ہیں۔ اور ان تمام مراکز اور ہسپتالوں پرسترہ سو ایکڑ سے زائد اراضی صَرف ہو چکی ہے۔ جس پر وسیع و عریض عمارات بھی کافی لاگت سے تعمیر کی گئی ہیں۔ اُن عمارات پر تعمیر، تعمیر نو، تزئین و آرائش، توسیع و تصحیح اور مرمت کے نام پر بیش قیمت بڑی بڑی نیم پلیٹس چسپاں ہیںجن پر بڑی بڑی شخصیات کے لمبے لمبے نام جلی حروف میںکندہ ہیں مگر جب ان عمارات میںداخل ہوا جاتا ہے تو الامان الحفیظ۔ تعفن،گندگی، غلاظت، بھیڑ بکریوںکی طرح کسی ہال میںجمع غریب مریضوںکا رش آپ کا استقبال کرتا ہے۔ ڈاکٹرز تو ڈاکٹرزچھوٹے عملے کے نخرے آسمان کو چھو رہے ہوتے ہیں اور بھیڑ بکریوںکے رےوڑوںکی طرح جمع غریب مریضوںمیں سے چند خوش نصیبوںکا برائے نام چیک اپ بھی کر لیا جاتا ہے۔ اگرکسی مریض کوکسی قسم کے ٹیسٹ کی ضرورت درپیش ہو تو شاز ہی ےہ سہولت اس کو سرکاری ہسپتال میںمیسرآتی ہے۔ بہرحال نسخہ میں لکھی گئی دوائی تو یقیناً سرکاری ہسپتال میں دستیاب نہیں۔ قارئین افسوس کی بات یہ ہے کہ پنجاب بھر میںسرکاری ہسپتالوںکی تعداد بھی زیادہ غےر تسلی بخش نہیںہے اوران کے رقبے اور عمارات بھی فی الحال عوامی ضروریات سے نبرد آزما ہونے کیلئے کافی ہو سکتے ہیںمگر بدقسمتی سے ان عمارات کے اندر بےٹھا ہوا عملہ عوام کے دکھ دورکرنے کی بجائے ان میں اضافہ کرنے کے درپے رہتا ہے۔ پچھلے پنج سالے میںجنوبی پنجاب کے لاکھوں معصوم خسرہ کی وےکسین کی عدم دستےابی کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے دوسری طرف پنجاب حکومت عملے کے مسائل کوبھی حل کرنے میںناکام نظرآتی ہے۔جیساکہ ینگ ڈاکٹرز کے مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے وہ جوق درجوق بیرون ملکوںکا رخ کر رہے ہیں۔ اگر اس بات کا سدباب نہ کیا گیا تو پنجاب جیسے تےسے ڈاکٹروں سے بھی محروم ہو جائےگا۔ ڈاکٹرزکے علاوہ دیگر میڈیکل سٹاف بھی گوناں گوں مسائل کا شکارہے۔ آج بھی اس صورتحال میں کچھ خاص بہتری نہیں آئی۔ اسی طرح جعلی ادویات اور عطائی ڈاکٹروں کی روک تھام میں ناکامی اور اب میڈیکل سٹورز والوں کے حل طلب مسائل بھی درد سر بنے ہوئے ہیں۔ صحت کے میدان میںسب سے بڑی ناکامی صوبہ بھر میں ایمرجنسی سے نبرد آزما ہونے کا ناقص ترےن انتظام ہے۔ دیہاتی قصبوں میں تو کیا تحصیل و ڈسٹرکٹ لیول پربھی پنجاب کے ہسپتالوں میں شعبہ حادثات بس نام ہی کے قائم ہیں ان کے اندر نہ جدیدسہولیات ہیں۔ نہ جدید آلات بلامبالغہ زےادہ تر جگہوں پرآکسیجن سلنڈرز بھی نہیںہیں اگر سلنڈرز ہیں توان میںآکسیجن موجود نہیں ہے۔حادثات کی صورت میںطبی ماہرین کی شدےدکمی ہے میڈیکل سپیشلسٹس، نےورو سرجن اور آرتھو پیڈک سپیشلسٹ کا شعبہ حادثات میں ہمہ وقت موجود رہنا ناگزیر ہے مگر بد قسمتی سے پنجاب بھر میں ماسوائے چند مراکز کے کہیں بھی یہ لوگ میسر نہیںہیں اورجہاں میسر ہیں بھی تو موقع پر دستےاب نہیںہوتے اور آج کل کی دہشت گردانہ فضاءنے ان شعبہ ہائے حادثات کی مزید قلعی کھول کے رکھ دی ہے۔ ان تمام مایوس کن حقائق کے باوجودیہ بھی حقیقت ہے کہ مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کہیںکہیں پنجاب حکومت نے امیدکے دیئے بھی روشن کئے ہیں۔جیساکہ نئے طبی مراکزکاقےام چونکہ آبادی میںبتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور ایک اندازے کیمطابق 1985ءسے تاحال اس اضافے کی شرح سوفیصد ہے ق لیگ کے 2ادوارکے خاتمے پر جب میاں شہباز نے تخت لاہورکی باگ ڈوراپنے ہاتھ لی تو راقم الحروف نے ایک ملاقات میںان سے گزارش کی تھی کہ 1122اور ٹریفک وارڈن وغیرہ جیسے اقدامات کوسیاسی انتقام کانشانہ نہ بناےا جائے۔فی الحال صحت کی بات ہورہی ہے توپنجاب حکومت کایہ بڑاخوش آئنداقدام ہے کہ اس نے 1122کو انتقام کا نشانہ نہ بنا کر اسکے تسلسل کوقائم رکھاہواہے اوراس کے فےض کو آگے بھی بڑھا رہی ہے۔رفتارسست سہی مگر 1122کوپنجاب کے مزید شہروں تک توسیع دی جارہی ہے۔جس سے پنجاب کے عوام کومزید سہولت حاصل ہوجائے گی۔ہرسال دوسال میںمحکمہ صحت کے عملہ میںکچھ نہ کچھ اضافہ کیاجاتاہے جوبہرحال مریضوںکی ضروریات کوپوراکرنے میںکسی حدتک معاون ہوتاہے۔ مگر ان سب سے بڑھ کرصحت کے میدان میں پنجاب حکومت کا کار نمایاں سرکاری سطح پر ڈائلسز سنٹرز کا قےام ہے پنجاب میں سارے پاکستان کی طرح ناقص خوراک، آلودہ پانی اور پلوشن نیز صحت عامہ کے اصولوں سے نا واقفیت کے سبب گردوں کی بیماری اور خرابی کا علاج مہنگے ترین علاجوں میںسے ایک ہے اوریہ علاج اس قدرمہنگاہے کہ غریب آدمی اس کے متعلق سوچ بھی نہیںسکتا اور اسے اس علاج کی زحمت اٹھانے سے مرجانا آسان نظرآتاہے۔عموماً یہ علاج سال ہا سال کرانا پڑتا ہے اور اےک سال میںگردوںکی صفائی اوسطاََ 45 سے 65مرتبہ مرض کی سطح کے مطابق کرانی پڑتی ہے اورایک باریہ صفائی کرانے کاایک اوسط درجے کے پرائیویٹ ادارہ میںخرچ تقریباً آٹھ سے دس ہزار روپے اٹھتا ہے اس طرح سال میں بتیس سے پینسٹھ لاکھ روپے درکارہیںجن کومہیاکرپاناغریبوںکے لیے ممکن ہی نہیں۔لیکن سرکاری سطح پرڈائلسزسنٹرزکے قیام کی وجہ سے ان اخراجات میں انقلابی کمی آئی ہے اور سرکاری سنٹر میں ایک بار ڈائلسز کا خرچ قانوناََ صفر روپیہ ہے مگر پھر بھی کوئی نہ کوئی انجیکشن وغیرہ مریض کو خریدنا پڑ جاتا ہے جس وجہ سے چند سو روپے خرچ ہوجاتے ہیںجوسستے پرائیویٹ ہسپتال سے بھی ہزاروں روپے کم ہے جس سے مریض کے سالانہ اخراجات میں لاکھوں روپے کے قریب کمی آتی ہے ۔حکومت پنجاب کے صحت کے حوالہ سے اُٹھائے گئے اس اقدام سے غریب عوام کی مایوسیوں میں خاطرخواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ پنجاب بھر میں ڈائلسز سنٹرزکا قیام کیا جائے اور ان کے معیار کو بلند سے بلند ترکیا جائے اور دیگرکوتاہیوںکو بھی جلد از جلد رفع کیا جائے۔
صحت اور پنجاب حکومت کے منفی مثبت پہلو
May 06, 2017