پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو غریب عوام کا نجات دہندہ سمجھا جاتا ہے ان کے دور میں کچھ ایسے کام بھی ہوے جن کا خمیازہ بہت سے طبقات بھگت رہے ہیں بھٹو صاحب نے اپنے دور میں پاک بھارت جنگ کے بعد مشرقی پاکستان کھو دینے کے بعد دباﺅ میں شملہ معاہدہ کیا تو انہوں اس بات کو نظرانداز کردیا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متھدہ کے ایجنڈے پر ہے اور بھارت یہ مسئلہ خود لے کر اقوام متحدہ گیا تھا شملہ میں بھٹو صاحب نے معاہدے میں یہ شق شامل کرادی کہ یا تسلیم کرلی کہ مسئلہ کشمیر دونوں ملک پاکستان اور بھارت باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے اس وقت سے جب بھی معاملے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی بات کی جائے تو بھارت صا ف انکار کر دیتا ہے اور کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دے کر شملہ معاہدے کا حوالہ دیتا ہے کہ مل بیٹھ کر حل کرنے پر پاکستان پابند ہے گویا کہا جاسکتا ہے شملہ معاہدہ ہی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور کارنامہ قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو کا ہے ۔
بھارت نے ترک صدرطیب اردوان کی جانب سے ثالثی کی پیشکش مسترد کردی ہے۔بھارت نے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ اور مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ مسئلہ قرار دے دیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات میں نریندر مودی نے مسئلہ کشمیر کو دو طرفہ قراردے دیا۔جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ پاکستان نے کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ترک صدر کی ثالثی کی پیشکش کا خیر مقدم کیا۔ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پرعالمی سطح پر تشویش ہے۔
دوسری جانب بھارت کی ہٹ دھرمی برقرار، ترک صدر کی جانب سے ثالثی کی پیشکش بھی مسترد کردی اور مسئلہ کشمیر کو دو طرفہ قرار دیدیا،ترک صدر رجب طیب اردون کے 2 روزہ دورہ بھارت کے اختتام پر نئی دہلی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان گوپال باگلے نے کہا کہ جہاں تک مسئلہ کشمیر کا سوال ہے تو ہم پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے ہمیشہ تیار ہیں۔ ہم صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ تمام حل طلب مسائل پر بات چیت کے لیے ہمیشہ تیار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے سلسلے میں پہلے بھی دو طرفہ کوششیں کی گئی ہیں، ہم مسئلہ کشمیر کو شملہ معاہدے اور لاہور اعلامیے کے مطابق مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے ترک صدر کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل میں ثالث بننے کی پیشکش کا خیر مقدم کیا اورا اقوام متحدہ، او آئی سی نے مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر زوردیا اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پرعالمی تشویش ہے۔امریکا سمیت عالمی برادری نے بھی مسئلہ کشمیرکے حل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ پاکستان نے انسانی حقوق اور مسئلے کے حل کیلیے بیانات اور کوششوں کا خیر مقدم کیا۔
اس سے پہلے دورہ بھارت کے موقع پر ترک صدر رجب طیب اردوان نے نہ صرف مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کی پیشکش کی تھی بلکہ پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کا بھی کھل کر ذکر کیا تھا۔بھارتی ویب سائٹ اور ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے ترک صدر نے بھارت سرکار کو دو ٹوک انداز میں مشورہ دیا کہ مسئلہ کشمیر میں دو طرفہ مذاکرات کے بجائے کثیر الجہتی مذاکرات ہونے چاہئیں اور ضرورت پڑنے پر ترکی بھی اس بات چیت میں شامل ہوسکتا ہے۔
بھارت سرکار نے صرف تین مختلف مواقع پر اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے سنجیدہ کوشش کی، اول جب فروری 1999 میں واجپائی لاہور آئے اور ایک قبول شدہ ٹائم فریم میں مفاہمت پر آمادگی ظاہر کی جس کے مطابق 25سال کیلئے آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے درمیان کنٹرول آف لائن ختم کردی جائے ، کشمیری جس ملک کا چاہیں ویزہ رکھیں اور کشمیر کا دفاع اور خارجہ پالیسی کے معاملات پاکستان اور ہندوستان کی مرضی سے طے پائیں۔ دوم، جولائی 2000میں نئی دہلی نے کشمیر کے مجاہدین آزادی کے ساتھ بات چیت پر آمادگی ظاہر کی۔ سوم، جب واجپائی نے جنرل مشرف کو آگرہ آنے کی دعوت دی اور اپنی 20ماہ کی اس پالیسی سے یو ٹرن لیا جسکے تحت واجپائی نے اکتوبر 1999 کارگل کے واقعہ کے بعد پاکستان سے بات چیت نہ کرنے کا فیصلہ کر رکھا تھا، آج پاکستان نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کیساتھ وابستگی کو مضبوط کر کے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا جائز طریقوں سے حل کرنے پر زور دیکر کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی اخلاقی اساس کو بے حد مضبوط کردیا ہے کیونکہ 8جون 1998 کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی منظور شدہ قرارداد میں بھی کشمیر کا ذکر کیا گیا۔اس کے بعد بھارت نے وہی شملہ معاہدہ کی رٹ لگا کر مسئلہ کشمیر کے حل سے گریز کی پالیس اختیار کررکھی ہے عالمی سطح پر اسلامی ممالک سمیت عالمی برادری کے تجارتی مفادات بھارت سے وابستہ ہیں اس لیے کوئی سخت ایکشن نہیں لیاجارہا۔