باڈر ملٹری پولیس کو پنجاب پولیس میں ضم کرنے کی سازش؟

خبر ہے کہ ڈیرہ غازیخان ڈویژن کے دو اضلاع ڈیرہ غازیخان اور ضلع راجن پور جو کوہ سلیمان کے بیشتر پہاڑی علاقہ پر محیط ہیں وہاں پر بارڈر ملٹری پولیس جو ان پہاڑی علاقوں میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کی ذمہ دار ہے اس فورس کو پنجاب پولیس میں ضم کرنے کی کوششیں آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں اگرچہ ہر دو اضلاع کی اس فورس کو آئینی تحفظ حاصل ہے اور اسے محض ایگزیکٹو آرڈر سے ختم نہیں کیا جا سکتا تو اس فورس کو پنجاب پولیس میں ضم کرنے کیلئے گورنر پنجاب آرڈیننس جاری کریں گے تب اس پر عملدرآمد ہو گا۔ اس پر بھی عملدرآمد کرنے کی کوششیں بھی جاری بلوچ ٹرائب پر کوہ سلیمان کے ان دو اضلاع میں صدیوں سے مقیم بلوچ اقوام کو تو صرف علاقے کا تمندار جانور کی طرح ہانکتا ہے اسے تو یہ ادراک ہی نہیں کہ بلوچ پٹی پر بارڈر ملٹری پولیس رہے یا پنجاب پولیس میں ضم ہو جائے۔ اس کا کیا نقصان اور کیا فا ئدہ ہو سکتا ہے۔ یہ تو علاقے کا بلوچ تمندا ر ہی بتا سکتا ہے کہ اس کس نظام سے فائدہ اور کس نظام سے انہیں نقصان ہو سکتا ہے۔ شنید ہے کہ ڈیرہ غا زیخان سے فورٹ منرو اور لغاری قوم کے تمندار با رڈر ملٹری پولیس کو پنجاب پولیس میں ضم کرنے کے حق میں ہیں لیکن یہ افواہ اس طرح اپنی موت آپ مرجاتی ہے کہ لغاری قبیلہ کے چیف سردار جمال خا ن لغاری نے اپنے ایک اخباری بیان میں واضع کیا ہے کہ اگر مقامی فورسز کو پنجاب پولیس میں ضم کیا گیا تو وہ بطور ایم پی اے مستعفی ہو جائیں گے۔ ” کوا کب کچھ نظر آتے کچھ“ کے مصداق زبان خلق اس بات پر ہی بضد نظر آتی ہے کہ لغاری سردار ہی اصل میں قبائلی فورسز کو پنجاب پولیس میں ضم کرنے کے نہ صرف حق میں ہیں بلکہ یہ انہی کی ہی تجویز ہے کیا اس پر عملدرآمد ہو سکے گا یا نہیں یہ کچھ وقت گزرنے کے بعد ہی پتہ چل سکے گا معاملات کھل رہے ہیں مگر آہستہ آہستہ ڈیرہ غازیخان کے لغاری سرداروں کے گروپ کے ایک اہم رکن جو یونین کونسل کے وائس چیئرمین ہیں اور لغاری گروپ کے میڈیا مینجر ہیں نے قبائلی فورسز کو پنجاب پولیس میں ضم کرنے کی نہ صرف مخالفت کی ہے بلکہ سوشل میڈیا پر اپنے ویڈیو پیغام میں ہر دو اضلاع کے بلوچ سرداروں اور تمنداروں سے کہا ہے کہ وہ اٹھیں اور تمام سردار بارڈر ملٹری پولیس اور بلوچ لیوی جیسی فورسز کو پنجاب پولیس میں ضم کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیں اور ساتھ ہی بلوچی باشندوں کو بھی خبردار کیا ہے کہ کہ اپنے حق کیلئے اٹھیں تاکہ یہ سازش پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے اور اس ساری صورتحال سے انہیں آگاہ کر دیا ہے تاکہ کل یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں خبر نہ ہوئی اس سے قبل کہ کوئی فیصلہ ہو جائے کہ قبائلی فورسز کو پنجاب پولیس کے ادارہ میں ضم کیا جائے یا بدستور وہ خود مختار ادارے کی طرح کام کرتا رہے قارئین کرام کو چند حقائق سے آگاہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس امر میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ڈیرہ غازیخان کے ہر دو اضلاع میں صدیوں سے سرداری نظام چل رہا ہے تمندار حضرات علاقے کے لوگوں کے جرائم پر کھلی عدالتیں لگا کر مجرموں کو سزائیں دیتے تھے۔ اور ضلعی ہیڈ کوارٹر کی جیلوں میں بھیج دیا جاتا تھا تحریک پاکستان میں قبائلی سرداروں اپنی رٹ کمزور ہوتی نظر آئی اور انگریز بہادر نے تمنداروں کو ہر قسمی یقین دلایا کہ وہ پاکستان کی مملکت کے ساتھ باقاعدہ الحاق کریں تو انہیں کسی قسم کی مشکلات نہیں اٹھانا پڑیں گی۔ انگریز نے ”ہر قسمی سہولت“ دیکر اور خصوصاً ”سر“ جسے خطاب سے بھی نواز کر تمام سرداروں کو پاکستان سے الحاق کرا لیا۔ اور بارڈر ملٹری پولیس ان سرداروں ‘ جاگیرداروں اور تمنداروں کی لونڈی بنا دی گئی اور پھر مقامی قوموں کے لوگوں کو اس میں شامل کر کے تمنداروں نے مقامی باشندوں جو بلوچ قبیلے کے تھے کو آبادی کے تناسب سے ملازمین عطا کی گئیں جو آج تک دی جا رہی ہیں۔ اس وقت بارڈر ملٹری پولیس سابقہ انگریز وفادار خاندانوں کے افراد پر مشتمل ہے یہ فورسز مقامی جاگیرداروں کی سیاسی بقا کی ضامن ہے ان حالات میں علاقے کے متوسط طبقہ میں سے مخلص سیاسی کارکن کا پیدا ہونا ناممکن نظر آتا ہے بارڈر ملٹری پولیس قتل اور دوسرے خطرناک ملزمان کو عرصے سے خاص منصوبہ سے گرفتار نہیں کر رہی تاکہ انہیں تمنداروں کے ڈیروں پر فیصلے کرائیں اور انہی سرداروں کے ڈیروں کا رخ کرتے رہیں اور بغیر میرٹ بھرتی اہلکاروں نے سرداروں کیلئے نجی ریاستیں قائم کرنے کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور اس فورس کے اہم عہدے خاندانی وراثت کے طور پر باپ سے بیٹے یا خاندان کے دوسرے فرد کو منتقل ہوتے رہے ہیں یہ عہدے سرداروں کی مضبوطی اور عوام پر اپنے ”راج“ پر گرفت مضبوط کرنے کیلئے یا پھر ان کی سیاسی ضرورتوں کیلئے استعمال ہو رہے ہیں اس لئے قبائلی علاقہ میں عوام کی مرضی کے بغیر وہ ان سے ووٹ حاصل کرنے اور اپنے حق میں دھاندلی کروانے میں کامیاب ہو جانے کی وجہ سے ان سرداروں کے مقابلے میں کوئی مخلص کارکن کامیاب نہیں کروا سکے۔چند لوگ بارڈر ملٹری پولیس میں میرٹ کا بات کرتے ہیں کیا میرٹ ہو گا‘ کیسے میرٹ ہو سکتا ہے‘ سرداروں کے منظور نظر بلوچوں کی ہی ان کا ”اصلی حق“ مل سکتا ہے قبائلی علاقے کے ان دو اضلاع میں مقدمات کے اندراج کا تناسب دیکھیں تو ہر طرف چین کی بانسری بج رہی ہے۔ یہ بھی ایک دلچسپ اعداد و شمار کا عجیب گورکھ دھندہ ہے جسے سمجھنا اور سمجھانا مشکل ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...