برطانیہ میں پاکستانی…ہم سب کیلئے مشعل راہ

میں ان دنوں ایک مطالعاتی دورے پر دو ہفتے سے برطانیہ میں ہوں۔ یوں تو پاکستانی تارکین وطن لاکھوں کی تعداد میں دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ہیں لیکن برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی حیثیت اور تجزیہ کئی اعتبار سے مختلف ہے۔ لندن کے مئیر کے بعد اب برطانیہ کی وزارت داخلہ کا قلم دان بھی ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری کو مل گیا ہے۔قیام پاکستان سے قبل اور اب بھی پاکستانی تارکین وطن "ولایت"میں مقیم ہونا اپنے لئے باعث اعزاز سمجھتے ہیں۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح بھی جب متحدہ ہندوستان میں کانگریس کی سیاست سے دل برداشتہ ہوئے تو انہوں نے بھی برطانیہ کا عزم کیا۔ لفظ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی بھی لندن میں مقیم رہے آپ کی جائے مرقد لندن سے ایک گھنٹے کی مسافت پر کیمبرج یونیورسٹی سے ملحق ایک قبرستان میں ہے۔ برطانیہ میں مقیم صاحب علم و فکر پاکستانی اپنی برطانوی اور پاکستانی شناخت کو ایک انتہائی متاثر کن فقرے سے ظاہر کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ" پاکستان ہماری دھرتی ماں اور برطانیہ ہمارا گھر ہے"۔ برطانیہ میں آباد پاکستانیوں کا ایک اور پہلو بڑا توجہ طلب ہے اور اس پہلو پر ہم سب کو خصوصی توجہ دینی چاہئیے، قیام پاکستان سے لے کر اب تک گزشتہ ستر سالوں کے دوران پاکستانیوں کی اکثریت محنت مزدوری اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ گئی۔ ان میں زیادہ تر ایسے افراد تھے جنہوں نے سال ہا سال برطانیہ میں ٹرک اور ٹیکسی ڈرائیونگ کی ، کسی Takeaway پر معمولی ملازمت یا مارکیٹ میں سیلز مین رہے ۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے برطانیہ میں سیاسی پناہ لی۔ ان کی پہلی نسل نے مجموعی طور پر مزدور کی حیثیت سے کام کیا لیکن انہوں نے اپنی اولاد کو برطانیہ کے تعلیمی اداروں میں اچھی تعلیم دلوائی۔ جس نے ان بچوں میں خصوصی نکھار پیدا کیا جب یہ نسل جوان ہوئی تو انہوں نے وہاں کے معاشرتی اور سیاسی ماحول میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر نمایاں مقام حاصل کیا۔ اس وقت سینکڑوں پاکستانی مقامی حکومتوں میں کونسلروں کے مرتبے پر فائز ہیں جبکہ درجنوں پاکستانی برطانوی اور یورپی حکومتوں کا اہم حصہ ہیں۔لندن میںمقیم ممتاز قانون دان اور ماہر ابلاغ رانا محمود صاحب نے بتایا کہ پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کی ایک اہم اور موثر تعداد برطانوی پارلیمنٹ کی رکن ہے۔ہائو س آف لارڈز میں، لارڈ قربان،لارڈ نذیر اور لارڈ طارق کے علاوہ ٹوری پارٹی کی سابقہ چیئر پرسن اور سابق بر طانوی وزیر سعیدہ وارثی کا نام نمایاں ہے۔ ہائوس آف کامنز کے ممبران میں انس سرور(چوہدری سرور کے فرزند) خالد محمود، یاسمین قریشی، ناز شاہ، ساجد خان، شبانہ محمود، عمران حسین،رحمان چشتی اور صادق خان شامل ہیں۔صادق خان اب لندن کے مئیر ہیں۔ جبکہ ساجد جاوید کو چند روز پہلے برطانیہ کا ہوم سیکرٹری (وزیر داخلہ) بنایا گیا ہے۔ برطانیہ میں وزیراعظم کے بعد سب سے اہم عہدہ وزیر داخلہ کا ہے۔اس کے بعد وزیر خارجہ کو اہمیت حاصل ہے۔ اس طرح اب لندن کا مئیربھی پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہے اور وزیر داخلہ بھی پاکستانی نژاد ہے۔یورپی یونین پارلیمنٹ میں بھی برطانیہ سے کئی پاکستانی نژاد برطانوی شہری ممبر منتخب ہوئے ہیں۔ جن میں افضل خان اور سجاد کریم نمایاں ہیں۔ سجاد کریم نے یورپین پارلیمنٹ میں "فرینڈز آف پاکستان"گروپ کی بنیاد رکھی۔جس نے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو یورپین یونین میں جی ایس پی (پلس) دلانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سجاد کریم کو پاکستان اور بیرون ملک بڑی عزت و احترام حاصل ہے۔ عرب ممالک اور دوسرے اسلامی ممالک بھی انہیں یورپی پارلیمنٹ میں اپنا نمائندہ تصور کرتے ہیں۔گریٹر مانچسٹر کے علاقے میں بیرسٹر امجد ملک ایک ابھرتی ہوئی ایسی شخصیت ہیں جو مستقبل میں برطانوی پارلیمانی اور قانونی نظام میں یقینی اعتبار سے اہم کردار ادا کریں گے۔ Huddersfieldمیں جہاں ضلع جھنگ ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اورکمالیہ کے ہزار ہاپاکستانی مقیم ہیں،یہاں کمالیہ سے تعلق رکھنے والے ممتاز قانون دان اور سماجی شخصیت مخدوم طارق محمود الحسن بھی برطانیہ کی مستقبل کی سیاست اور معاشرت میں اہم کردار ادا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ انعام الرحمن سحری مانچسٹر کے تاجر اور دانشور طبقے کے نمائندہ فرد ہی نہیں بلکہ علمی اور تحقیقی کاموں میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی اس کاوش کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہے۔اسی طرح پاکستانی نژاد عالمی شہرت یافتہ برطانوی باکسر عامر خان بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔دوسرے ممالک میں مقیم تارکین وطن کی طرح برطانیہ میں رہنے والے پاکستانی بھی 2018کے عام انتخابات میں E-Ballotingکے ذریعے حق رائے دہی استعمال کرنے میں انتہائی پرجوش نظر آتے ہیں۔ایک سروے کے مطابق بیرون ملک پاکستانیوں کی ستر فی صد سے زیادہ تعداد تحریک انصاف کے حامیوں کی بتائی جاتی ہے۔وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت پاکستان اور دوسری فیصلہ ساز قوتیں برطانیہ میں مقیم ان پاکستانیوں کو عام فرد نہ سمجھیں بلکہ اب یہ لوگ ایک پھل دار درخت کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔اس سے پہلے کہ یہ پھل پک کر گرجا ئے ہمیں انہیں پاکستان اور یورپی ممالک کے باہمی تعلقات میں کلیدی حیثیت دینی ہو گی۔ ان افراد سے تعلق قائم رکھنا پاکستان کے خوشحال اور باوقار مستقبل کی ضمانت ہے ۔ ان میں سے ہر ایک فرد پاکستانی سفارت خانوں سے کہیں بڑھ کر پاکستان کی خدمت سرانجام دینے کا اہل ہے۔

ای پیپر دی نیشن