پاکستان میں ٹیلیویژن

26 نومبر 1964 جمعرات کے دن پاکستان میں ٹیلیویژن کا ا یوب خان صدرِ پاکستان کے ہاتھوں افتتاح ہُوا۔ چند کمروں کی ایک منی سی عمارت جس کا ایک بڑا کمرہ اسٹوڈیو ٹھہرایا گیا جس کے پچھلے حصے میں تھوڑی سی خالی جگہ میں توفیق اعجاز سیٹ بنا کر ٹکڑوں میں اسٹوڈیومیں لاتے اور بصیرت، موسم کا حال اور اگلے پروگرام کا سیٹ لگا دیا جاتا۔ ہال کے ایک کونے میں اناؤنسمنٹ اور خبروں کا مستقل سیٹ اپ تھا۔میں اُس اسٹوڈیومیں دو دن بعد۲۸؍ نومبر۱۹۶۴ کو شام تقریباً سات بجے داخل ہُوا۔ہفتے کی اُس شام تقریباً آٹھ بجے ٹیلیویژن کا پہلا باقاعدہ ڈرامہ ’’نذرانہ‘‘ لائیو ٹیلی کاسٹ ہونا تھا، ’’نذرانہ‘‘ کی تحریر نجمہ فاروقی کی تھی۔ پروڈیوسر ؍ ڈائریکٹر فضل کمال اورجس کی کاسٹ میں کنول نصیر (اُس وقت حمید)، محمد قوی خان، بختیار احمد ، تمنا خانم اور ایک دو اور خواتین تھیں(افسوس مجھے اُن کے نام یاد نہیں )۔ بہرحال ٹی وی کے تیسرے کھیل ’’کالا پتھر‘‘میں منور توفیق کے ساتھ میں ہیرو تھا۔ٹیلی ویژن میں اُسوقت کوئی بھی ایسا شخص ملازم نہیں تھا جس کا تعلق کسی نہ کسی ایک یا کئی حوالوں سے تخلیقی فن و ادب سے نہ ہو۔اسٹیج، ریڈیو، فلم، ادب، شاعری، مصوری، کلاسیکی، نیم کلاسیکی، عوامی موسیقی،غرض ایک کہکشاں تھی جس نے ٹیلیویژن پر ستاروں کی سیج سجا رکھی تھی۔پاکستان ٹیلیویژن بہت تیزی سے ترقی کرتا گیااور پاکستان کی پہچان بن گیالیکن جیسا کہ دستور ہے زوال شروع ہو گیا اور جیسا کہ ہر زوال کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ ٹیلیویژن کے معاملے میں وجوہات متعدد ہو گئیں اور آخر ٹیلیویژن وہ ہو گیا جو وہ آج ہے۔آئیے ایک ایک کرکے زوال کی وجوہ جانیں۔سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ ٹیلیویژن کو ایک فنی ادارے کے بجائے ایک ملازمت پیشہ محکمہ بنا دیا گیا۔خیر یہ تو ہونا ہی تھا جب حکومت اپنی زیر سر پرستی کوئی ادارہ بناتی ہے تو اپنا کنٹرول بھی چاہتی ہے لیکن یہاں المیہ یہ ہُوا کہ فن و ہنر کو بھی ملازم بنا دیا گیا۔ سب سے پہلے تو ہر شعبے میں جس کو بھی بھرتی کیا گیا اُسے گویا نوکر رکھ لیا گیا،وہی ساٹھ چار سو کی طرح کا نوکر۔( اُس زمانے میں جب کوئی نوجوان حکومت کی ملازمت میں لیا جاتا تو جونیئرکلرک کی تنخواہ ساٹھ روپے ماہوار مقرر ہوتی۔ چند روپلی الاؤنس وغیرہ ملا کر اُسے مہینے بھر بعد تقریباًاسی نوے روپے مل جایا کرتے تھے۔ اور سال بھر بعد چارروپے ترقی ملتی تھی)لیکن ۱۵ ؍اگست 1969 کوجب میں بھرتی ہُوا توپا کستان ٹیلیویژن میں تنخواہیں قدرے بہتر تھیںیعنی اُس وقت پے اسکیل تھا 400-40-1000۔اس پے اسکیل میں 1972 جنوری (۲۶ دسمبر ۱۹۷۱ کوبھٹو کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان بننے کے ساتھ ہی تقریباً اُسی دن اسلم اظہر کو ایم ڈی بنا دیاجس نے غالباًپہلا آرڈر میری ٹرانسفر کا کیا(کیوں ؟ یہ کہانی پھر سہی) اور دس جنوری کو مجھے کراچی ٹی وی سینٹر پر رپورٹ کرنے کا حکم دے دیا۔اُس وقت خواجہ شاہد حسین ڈائریکٹر پروگرامز تھے اور میری اُن سے یاد اللہ تھی کہ ہم دونوں مع اُن کی بیگم یاسمین کے محسن شیرازی کے ا یک انگریزی کھیل میں الحمرا لاہور کے ا سٹیج پر کام کر چکے تھے۔میں خواجہ شاہد حسین سے ملا اور زبانی عرض کی کہ اسلم اظہر سے کہے کہ مجھے کراچی ٹرانسفر نہ کرے۔ خواجہ شاہد حسین نے مجھے بتایا کہ اسلم اظہر سے کہنا فضول ہے وہ نہیں مانے گا۔ اب میں سوچوں کہ میں اس تنخواہ میں کراچی میں کیسے رہوں گا۔وہاں میری کوئی خاص جان پہچان نہ تھی۔ لے دے کے ثاقب شیخ اور کامران مفتی تھے جو میرے لاہور کے دوست تھے ۔ لہٰذا میں ثاقب کے گھر کوئینز روڈ پر پی آئی ڈی سی پُل کے پاس جہاں وہ غضنفر کی کوٹھی اور دفتر میں ایک انیکسی میں رہائش پذیر تھا جا پہنچا۔ اللہ ثاقب اور کامران مفتی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے انہوں نے مجھ بے سہارا کو اپنے ساتھ کچھ عرصے تک رکھا ورنہ اس ٹرانسفر نے تو مجھے بے گھر کر ہی دیا تھا۔ (یادش بخیر غضنفر ہورڈنگز کا ٹھیکیدار تھا ار اُس کی رہائش کے تقریباً بالمقابل ’’لیڈو‘‘نامی ایک نائٹ کلب تھا جہاں داخلے کا ہمیں کبھی اتفاق نہ ہُوا کہ اول تو ہمارے پاس پیسے ہی نہیں ہوتے تھے اور دوسرے کم از مجھے اور کامران مفتی کو نہ شراب کا چسکہ تھا نہ شباب کا۔ لاہور سے اکھڑ کر پنڈی اور اب پنڈی سے اکھڑا تو کراچی میں طوعاً وکرہاً آن بسا۔ تقریباً ایک ڈیڑھ ماہ کے بعد میں سیالکوٹ سے اپنی بیوی اور تین بچوں کو لے آیا اور ماری پور میں اپنے تایازاد بھائی مختار احمد کے پاس ٹک گیا۔ پہلے کوئنز روڈ سے اپنی موٹر سائیکل پر ٹی وی سینٹر جاتا تھا اب ماری پور سے آتا جاتا اور اسلم اظہر کو خوب خوب یاد کرتا تھا۔ ایک دو مکان بھگتانے کے بعدمجھے ایک بزرگ نے الہلال سوسائٹی میں ایک گھر کا اوپر کا حصہ 136 روپے ماہوار پر کرائے پر دے دیا۔اللہ ان کا بھلا کرے اچھے بزرگ تھے مگر اُن کا داماد جس نے وہ مکا ن اپنے خسر صاحب کے نام پر بنا رکھا تھا،البتہ گھٹیا آدمی تھااور حیدر آباد میں ریوینیو کے محکمے میں کسی اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔پرودگار کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم پانچ بعد میں چھ اور جب میرے والدین تشریف لاتے تو آٹھ افراد کا کسی نہ کسی طرح گزارا ہو جاتا تھا۔یوں گاڑی چلنے ہی لگی تھی کہ بھٹو نے یونین بازی کا کھڑاگ شروع کرا دیا ۔ ٹیلیویژن میں بھی یونین بازی شروع ہو گئی اور ٹی وی کے اُس وقت کے کرتاؤں دھرتاؤں نے عمومی ملازمین کے ساتھ تخلیقی ملازمین کو بھی اُ س رگڑے میں دھر لیا۔ پی آئی اے کی طرز پر گروپ سسٹم کا آغاز ہو گیا اور پروڈیوسر ڈائریکٹر، کیمرہ مین، ڈیزائنر، میک اپ آرٹسٹ، تدوین کار ،ساؤنڈ ریکارڈسٹ، وڈیو تدوین کار،اسکرپٹ ایڈیٹرز اور (CCU) کیمرہ کنٹرول یونٹ والے سب کو نائب قاصدوں اور ٹیلیفون آپریٹروں کے ساتھ گروپوں میں نتھی کر دیا گیا۔ یہ گویا بربادی کی ابتدا تھی۔ تخلیقی کام کرنے والے غیر تخلیقی کام کاج کرنے والے ملازمین کے برابر لا کھڑے کیئے گئے۔ میرے پوچھنے پر کہ یہ حرکت کس نے کی تھی آغا ناصر نے بتایا تھا کہ یونین کے مجبور کرنے پر اسلم اظہر کو یہ بات ماننی پڑی تھی!تو ہُوا یوں کہ اس ساری گڑبڑ میں یونین تو سروں پہ سوار ہو گئی اور بچارے تخلیق کار اور ہنرمند کارپوریشن کے غلام بنا دیئے گئے۔ پروڈیوسر ؍ ڈائریکٹر، اور تمام تخلیق کار ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائر کر دیئے جانیکا بندوبست ہو گیا۔ اُن دنوں ہمیں دفتری سیاست کا بالکل بھی ادراک نہ تھا۔اُس وقت تو ہمیں اتنا احساس ہی نہ ہُوا مگر جب اس پالیسی کے اسرار
کھُلے کہ جب کوئی تخلیق کار منجھ جائے گا تو اُسے ٹھکانے لگا دیا جائے گا توجب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔چالاک افسر بنے کلرکوں نے تخلیق کاروں کی گردنوںپر گھٹنا رکھ لیاہُوا تھا۔ تنگ آ کر کچھ فن کارٹی وی کی ملازمت چھوڑنے لگے اور باقی کے ایک ایک کر کے ریٹائر ہوکر ناکارہ قرار دیئے جانے لگے تو پتہ چلا کہ ٹیلیویژن کے اعلیٰ دماغ تو ناکارہ اور بیکار قرار دیئے جانے لگے ہیں ۔ Brain Drain شروع ہوگئی ہے اور نالائق سفارشی اور نکمے اب اوپر آنے لگ پڑے ہیں۔ یوں ٹیلیویژن کی مضبوط آ ’ہنی دیوار کو ریٹائرمنٹ کا سیلاب زنگ آلود کرنے لگا۔ جس ادارے کو ایک دنیا سراہ رہی تھی اسے گھن کھانے لگا اور اب یہ حال ہے کہ نالائق، کرپٹ، بے ہنر، بے سلیقہ، غیر پیشہ ور، جاہل،نکمے پی ٹی وی کو لوٹ کر کھائے جا رہے ہیں اور کس نمی پُرسم کہ بھیا کون ہو۔ حکومت کا کوئی بالغ انسان دنیا میں کسی بھی تخلیقی کام کرنے والے کو سمجھا دے کہ کیا فن و ہنر کے ماہرین بھی کبھی اپنے کام سے ریٹائر ہوتے ہیں ؟اور تو اور کیا کبھی کوئی ترکھان بھی اپنے کام سے ریٹائر ہُوا ہے؟ عقل سے ماورا ارباب ِ اختیار سوچو اور اب بھی اس اُجڑے دیار کو، جسے پاکستان ٹیلیویژن کہتے تھے ڈھے جانے سے بچا لو ۔ ابھی اُن دنوں کے چند سیانے باقی ہیں اُن سے سیکھ لو کہ ٹی وی کیوں کر اپنے عروج پر آیا تھا!کن محنتوں کو آج بھی کام میں لا کر ہم کھویا ہُوا مقا م حاصل کر سکتے ہیں۔ یاد رکھو پی ٹی وی مار کٹنگ کے بل بوتے پر ایک شان دار عروج کا اہل نہیں ہُوا تھا ‘پی ٹی وی کے پروگراموں نے مارکٹنگ کو ترقی دی تھی۔پی ٹی وی کو کیسے اور کس نے برباد کیا ؟ میرٹ کی تباہی اور یہ تباہی لانے والوں نے، گروپ سسٹم اور گروپ سٹم کو رائج کرنے والوں نے ، تخلیقی شعبوں کو نوکری سمجھنے اور کروانے والوں نے، تخلیقی پیشہ وروں کو ریٹائر کرنے والوں نے۔ابھی موقع ہے۔ اس سے فائدہ اُٹھا لو حکومت والو! ورنہ تباہی تو سامنے رکھی ہے ۔ نالائقوں، اناڑیوں، غیر پیشہ وروں، لٹیروں، کمیشن کھانے والوں،اپنی نا اہلیوں کی بنا پر پروگراموں کو پروڈیوس کرنے کے بجائے کمیشن لے لے کر پروگرام خریدنے والو ں سے جان چھڑائے بغیر‘ پی ٹی وی تباہی کے گڑھے میں مزید دھنستا جائے گا۔ و ما علینا الاالبلاغ

ای پیپر دی نیشن