بہت کچھ بدل جائے گا!

لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا ہم کرونا سے پہلے والی زندگی کی طرف لوٹ پائیں گے؟ فی الوقت جس کا جواب بے حد مشکل مگر ایک بات طے ہے کہ صرف پچھلے 3مہینوں میں کرونا ہماری زندگیوں اور ہماری معاشرت سے جو کچھ چھین کر لے گیا ، شاید ہی کبھی واپسی ہو سکے۔ جس نہج پر ہماری زندگیاں 2020 ء کے آغاز میں تھیں ، اس ٹریک پر آتے آتے شایدمدتیں لگ جائیں اور پھر بھی کچھ نہ کچھ کمی رہ جائے۔ یونیورسٹیاں بند ، سکول بند، کاروبار بند، کارخانے بند، بازار بند، بسیں بند ، ریل بند، جہاز بند، انسان بند، سوچ بند، دماغ بند، غرض کچھ بھی تو کھلا نہیں رہا۔ ہمارے ہاں تو نہیں امریکہ اور یورپ کے اکثر ہوائی اڈوں پر ہر 5سیکنڈمیں ایک جہاز اڑان بھر رہا ہوتا ہے یا لینڈ کر رہا ہوتا ہے۔ ہم اتنا سفر سڑک سے نہیں کرتے ، جتنا وہ جہاز سے کرتے ہیں۔ بے پناہ ذاتی طیارے اس پر مستزاد، اس بھاگم بھاگ میں وہ دور دراز جگہوں پر پھنسے ہوئے ہیں۔ لاس اینجلس والا نیویارک میں اور نیو پارک والا لاس اینجلس میں کرونا کو رو رہا ہے۔ ذاتی جہاز میں ورجینیا سے فلوریڈو آئے ہنری یارک مہینہ بھر کی بندش سے اس قدر پینک ہو گئے کہ اپنے ہی جہاز پر لوہے کے راڈ سے حملہ آور ہو گئے اور اس کاکباڑ بنا دیا۔ ان کے خیال کے مطابق مشکل میں کام نہ آنے والی سواری کا یہی حشر ہونا چاہئے تھا۔
نفسیات بار بار ہاتھ دھونے والوںکو ذہنی مریض قرار دیتی ہے۔ کرونا کے خوف کا یہ عالم کہ پوری نوع انسان اس مرض میں مبتلا ہو چکی اور شایدہمیشہ کیلئے پاکستان سمیت دنیا بھر کو لاک ڈائون میں گئے 50دن سے اوپر ہو گئے۔ گھروں میں بندشہری نہیں جانتے کہ ان کی یہ ابتلا کب ختم ہو گی۔ تاریخوں پر تاریخیں دی جا رہی ہیں اور یہ سلسلہ کب تھمے گا ، وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ایک ایک مرلہ کی کھولیوں کے باسی انسانوں کی کیفیت ڈربوں میں بندمرغیوں جیسی جو باہر نکلنے کیلئے ہمہ وقت پھڑ پھڑاتی رہتی ہیں۔ جانور تو پھر سمجھوتہ کر لیتے ہیں مگر ڈربوں میں گوشت پوست کے انسان اس اذیت کا کیا اثر لیں گے اور کن جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی رویوں کے ساتھ باہر آئیں گے ، کچھ کہنا مشکل ہے۔
کرونا کی یلغار نے دنیا کے اعصاب یوں بھی معطل کر رکھے ہیں کیونکہ اس کے ارادوں سے کوئی بھی آگاہ نہیں بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ بظاہریہ چلا بھی گیا تو بہت دورتک نہیں جائے گا اور آپ کے قرب و جوارمیں ہی روپوش رہے گا اور جونہی ذرا غافل ہوئے، یہ شاطر وائرس پھر سے آپ کے دروازے پر کھڑا ہو گا اور یہ بھی حقیقت کہ کاروبارِ حیات کو غیر معینہ مدت کیلئے بند نہیں کیا جا سکتا۔ جونہی منحوس کرونا کا زور ٹوٹا ، دنیا زندگی کے معمولات کی طرف پلٹے گی کیونکہ روٹی کمانا پڑتی ہے اور ہر کسی کو گھر بیٹھے نہیں ملتی ۔
فاصلہ، فاصلہ اور فاصلہ کا درس ہماری زندگیوں میں ایک بہت بڑی دراڑ ڈالنے جا رہا ہے جسے شاید ہماری نسل پر نہ کرسکے۔ سماجی زندگی میں دوریوں سے انسان کا اعتماد متزلزل ہوگا۔ خوداعتمادی جس کے بل پر وہ ترقی کی معراج کوپہنچا اور زمینوں اور آسمانوں کی خبر لایا اورطاقت کے زعم میں ہم جنسوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا اہتمام بھی کرلیامگر وہ بھول گیا انسانوں کو مارنے کیلئے رنگ برنگے اسلحہ خانوں کی تو ضرورت ہی نہیں۔ ایک بے جان سی خوردبینی چیز جسے مخلوق بھی نہیں کہا جاسکتا، خاموشی کے ساتھ اسے دنوںمیں معدوم کرسکتی ہے اور تمام تر دنیوی اسباب میسر ہونے کے باوجود آپ اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے جو تمہارے لئے بے پناہ سماجی، معاشی، نفسیاتی مسائل پیدا کرسکتی ہے (اورکرچکی ہے) اور تمہارے پاس ’’ٹک ٹک دیدم‘‘ کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔جناب وزیراعظم مسلسل مژدہ سنا رہے ہیں کہ وطن عزیز میں ہم نے کرونا کے پھیلائو ا ور اموات کا جو نقشہ ذہن میں بنایا تھا، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ غلط ثابت ہوا۔ اس کاپھیلائو اس رفتار سے ہے نہ ہی اس تیزی کے ساتھ زندگیوں کی بھینٹ لی ہے۔ اللہ کرے یہی ٹرینڈ چلتا رہے اور قوم کو جلد از جلد اس آزمائش سے نجات مل جائے۔ بے شک یہ پروردگار کا احسان عظیم ہے کہ ہر طرح کے دینی و دنیوی گناہوں اور جرائم میں لتھڑی اس بے سمت اور گمراہ قوم پر ہاتھ ہولا رکھا ہے۔
بڑے کرم کے ہیں یہ فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے
بیکاری اور بیروزگاری دنیا بھر کا ایک بڑا مسئلہ بن چکی۔ ابھی تو سب سرکاریں شہریوں کی بلائیں لے رہی ہیں، وظیفے دیئے جا رہے ہیں، رقمیں ٹرانسفر ہو رہی ہیں مگر آخر کب تک؟ گھر بیٹھے کروڑوں شہریوں کو کوئی بھی ریاست نہیں پال سکتی۔ کرونا کی گرد بیٹھتے ہی دنیا بھر میں بیکاری اور بیروزگاری کا وہ فلڈ گیٹ کھلے گا کہ بڑی بڑی عالمی معیشتیں بھی بیٹھ جائیں گی۔ پاکستان کی تو مثال ہی ’’گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا‘‘والی ہے، جس کے زرمبادلہ کے ذخائر کی تمام تر رونق ان پاکستانیوں کے دم قدم سے ہے جو اپنے پیاروں کو پیچھے چھوڑ کر قسمت آزمائی کیلئے اجنبی دیسوں کی جانب جا نکلتے ہیں اوربھوکے پیاسے رہ کر اور صحت برباد کرکے پائی پائی جوڑتے ہیں اور وطن بھجواتے ہیں۔ ’’قطرہ قطرہ دریا می شود‘‘ کے مصداق یہ غیرملکی کرنسیاں پاکستان کے خزانے میں پہنچتی ہیں تو 15، 20ارب ڈالر تک کی رونق لگا دیتی ہیں۔
دیار غیر میں کرونا کا پہلا وار انہیں جفاکش اور فاقہ مست پاکستانیوں پرہوا ہے۔ ملک کے ان کمائو پوتوں کی نہ صرف نوکریاں جاتی رہی ہیں، مغرب اور خلیجی ریاستوں سے ایک لاکھ کے لگ بھگ پاکستانی وطن واپسی کیلئے پابہ رکاب ہیں جنہیں ہم محض تسلیاں دے رہے ہیں کہ ہوائی بندش کھلتے ہی واپس بلا لئے جائیں گے۔ ایک تھیوری یہ بھی چل رہی ہے کہ سرکار ’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے کہ کرونا سے جلد جان چھوٹنے کی صورت میں ان کی نوکریاں پھر سے لگ جائیں اور زرمبادلہ کا سربندھ بنا رہے مگر ان کا تو ایک ایک دن عذاب ناک ہے۔ مختصر سے کمروں 20، 20لوگ گھسے جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں، کرونا شاید ان کا مقدر بن چکا کیونکہ ان حالات میں جسمانی فاصلے کی برقراری سے لیکر دیگر حفاظتی اقدامات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کے ان محسنوں کو دیارغیر میں یوں بے یارومددگار حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ایک مجرمانہ فعل ہے۔ ان کی فی الفور وطن واپسی حکومتی کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔

ریاض احمد سید…… سفارت نامہ

ای پیپر دی نیشن