اسلام آ باد (خصوصی رپورٹر ) سپریم کورٹ نے آکسیجن سلنڈرز کی قیمت مقرر کرنے کا حکم د یتے ہوئے کہا ہے کہ وزارت صنعت و پیداوار دو دن میں آکسیجن سلنڈر کی قیمت کا تعین کرے، قیمت کے تعین کا طریقہ کار بھی وضع کیا جائے، این ڈی ایم اے کے سارے معاملات گڑ بڑ ہیں، قرنطینہ سینٹر پر کروڑوں روپے خرچ کردیئے گئے، سب کو معلوم ہے حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹر کا کیابنا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں کورونا ازخود نوٹس کیس کی سماعت 3 رکنی بینچ نے کی، ڈریپ اور این ڈی ایم اے کی رپورٹس جمع کرا دی ہیں، سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ این ڈی ایم اے کے سارے معاملات گڑ بڑ ہیں، الحفیظ نامی کمپنی کو این 95 ماسک کی فیکٹری لگوائی گئی، فیکٹری کیلئے ساری مشینری اورڈیوٹیز کی ادائیگی نقد کی گئی، چارٹرڈ جہاز کے ذریعے مشینری منگوائی اس کی ادائیگی بھی نقد ہوئی، چائنہ میں پاکستانی ایمبیسی کے ذریعے کیوں خریداری کی گئی؟ کیا چائنہ میں پاکستانی ایمبیسی خریداری کیلئے استعمال ہوتی ہے؟ ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چارٹرڈ جہاز بھی ایمبیسی کے ذریعے ہی کروایا گیا، کیا چائنہ میں پاکستانی سفیر خریداری ہی کرتے ہیں یا ڈپلومیٹک کام بھی؟ کیش کس کو دیا گیا کس نے وصول کیا نہیں معلوم ہے، ہر چیز میں این ڈی ایم اے کا ذکر ہے، چار پانچ مرتبہ آرڈر دیا تو کچھ دستاویزات دی گئیں، اب ان دستاویزات کا بھی معلوم نہیں یہ کیا ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ قرنطینہ سینٹر پر کروڑوں روپے خرچ کردیئے گئے، سب کو معلوم ہے حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹر کا کیا بنا، حاجی کیمپ پر کروڑوں روپے لگا دیئے گئے نہ پانی ہے وہاں نہ ہی رنگ کیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا چیئرمین این ڈی ایم اے نے قرنطینہ سینٹر کا دورہ کیا ہے؟ ہمیں نہیں معلوم آپ نے چارج کب لیا، چئرمین این ڈی ایم اے نے ذمہ لیا ہے تو قرنطینہ سینٹرز کا کل دورہ بھی کرنا چاہیے۔ عدالت نے چیئرمین این ڈی ایم اے کو تمام قرنطینہ سینٹرز کا وزٹ کرنے کا حکم دیتے ہوئے این ڈی ایم اے سے قرنطینہ سینٹرز کی حالت پر رپورٹ طلب کرلی، جب کہ عدالت نے این ڈی ایم اے کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر وضاحت کے لیے چیئرمین این ڈی ایم اے کو طلب کر لیا۔ دورانِ سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بیان دیا کہ 30 اپریل کو حکومت نے غیر رجسٹرڈ ادویات کی درآمد کا این او سی جاری کیا ہے۔ ڈریپ حکام نے جواب میں بتایا کہ وینٹی لیٹر سمیت کئی آلات ملک میں تیار ہو رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ غیر رجسٹرڈ آلات اور ادویات کو امپورٹ کی اجازت کیوں دی گئی ہے، کیا کوئی تحقیقات کی ہے کہ ادویات آخر کیوں منگوائی جا رہی ہیں، حکومت کو کیسے معلوم ہوگا کہ کون سی چیز منگوائی جا رہی ہے، کورونا سے نمٹنے کے لیے طبی آلات کی دستیابی کی کیا صورتحال ہے۔ ڈریپ حکام کا کہنا تھا کہ ملک میں کورونا سے متعلق کسی بھی دوائی کی قلت نہیں، ایکٹمرا انجیکشن کے علاوہ کئی ادویات کا کئی ماہ کا اسٹاک موجود ہے۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹمرا کے حوالے سے کافی منفی رپورٹس ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان اسٹیل مل سے آکسیجن کی بڑی مقدار مل سکتی ہے۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اسٹیل مل کا آکسیجن پلانٹ کم و بیش 40 سال پرانا ہے، آکسیجن پلانٹ فعال کرنے میں ایک ارب روپے کی لاگت آئے گی۔