ایک عام شہری کی جان و مال کے تحفظ کا نعرہ ہر حکومت کے ہر دور میں بلند کیا، عوام کے جھتے، برادریاں او ر گروہوں نے انہی نعروں کی زد میں آکر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا اور اپنے مسیحائوںکو اقتدار کی کُرسی پر براجمان کیا ۔نعرہ گزیدہ ، مارگزیدہ سے خطرناک ثابت ہوا ۔ مارگزیدہ کو تریاق سے زائل کیا جاسکتا ہے اور ویکسین کے استعمال کے بعد آدمی صحت یاب ہو کر ایک بار پھر معمول کی زندگی پر مامور نظر آتا ہے ۔ مگر "نعرہ گزیدہ " اقتدار پر براجمان لوگوں کے جانے تک اس ڈ سے جانے والے زہر کا تریاق ڈھونڈتے ڈھونڈتے پانچ سال گزاردیتا ہے ۔اور ایک بار پھر کسی نئے نعرے سے ڈسے جانے کے لیے خود کو رضا کارانہ طور پر پیش کر دیتا ہے ہر دو جمہوری یا فوجی اقتدارمیں ملک میں کرپشن ناانصافی اور سٹریٹ کرائمز سے خطرناک حالات پاکستانی عوام کو ہمیشہ سے درپیش رہے ۔ مگر حیرت ہے گزشتہ کی بہ نسبت موجودہ جمہوری اقتدار میں اس میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ چند حقیقی واقعات قارئین کی نذر کروں گا فیصلہ ارباب اختیار یا قارئیں خو د کر لیں ۔ جان ومال کے تحفظ میں اول الذّکر کی اہمیت سب سے زیادہ ہے ۔ ہر ذی شعور انسان آخر الذکر کی بھی مال کو جان پرور دیتا ہے اور جان بچانے کو اولین ترجیح دیتا ہے ۔ ان دنوں لازم اور ملزوم گرپوںکا جائزہ پیش خدمت ہے ۔ سٹریٹ کرائمز ہر دور میں موجود رہے ۔ مگر ان میں شدّت موجودہ دور میں دیکھنے میں آرہی ہے ۔ کہیں بھی کسی بھی جگہ کھڑے موٹر سائیکل یا کار کو منٹوں میں غائب کر دینے کے ان گنت واقعات سامنے آرہے ہیں۔ اگر میں فقط اپنے شہر گوجرخان کی بات کروں تو گزشتہ چند مہینوں میں کئی گاڑیاں اور موٹر سائیکل چو ری ہو گئے جن کا سراغ نہ مل سکا۔
مذکورہ وادتیں اس دیدہ دلیری کے ساتھ ہوئیں کہ دن دیہاڑے اور اہم شاہراوں سے حیران کن طریقے سے انجام دی گئیں ۔ موبائل ، پرس ، اور رقم چھیننے کی وارداتوں کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں سروس روڈ ، گلی ، محلوں اور بازاروں سے اور جی ٹی روڈ کے کنارے چلتے موبائل فون سنتے لوگوں سے پلک جھپکنے میں موٹر سائیکل سوار موبائل ، نقدی ، پرس چھین لے جاتے ہیں۔ کیا ہمارا پولیس کا نظام اس قدر بوسیدہ اور ناکارہ ہو چکا ہے کہ ایسے لوگوں کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا ؟ گزشہ دنوں پریس کلب کے ایک سینئر عہدے دار ملک جاوید اور ایک تاجر سعد ظہیر سے سڑک کنارے دن دیہاڑے موبائل فون چھین لیا گیا ۔ راقم الحروف سے رات8بجے جی ٹی روڈ سڑک کنارے فون سنتے ہی موٹر سائیکل سوار موبائل جھیمپ کر غائب ہو گئے ۔ میں نے ایس ایچ او تھانہ سہالہ سے ملاقات کی اپنا قصہ سنایا ۔ اور انہیں تجویز دی کہ اگر آپ مختلف جگہوں پر سول کپڑوں میں سروس اور جی ٹی روڈ کے کنارے فورسزکے لوگوں کو موبائل فون سننے کے لیے کھڑا کر یں۔ اور کچھ فاصلے سے واردات کرنے والوں کو ٹارگٹ کریں اور اسی طرح مختلف جگہوں پر گاڑیاں پارک کر کے انہیں مانیٹر کرتے ہوئے چوروں کے چند گرہوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیں تو یہ وارداتیں کم ہو سکتی ہیں ۔ انہوں نے اس تجویز پر عمل کے لیے وعدہ کیا ہے مگر اب تو سننے میں آیا ہے کہ موبائل فون افغان بارڈر پار بھیج دیے جاتے ہیں اور راولپنڈی کے مختلف بازار وں میں ای ایم آئی نمبرز کی تبدیلی والے سافٹ ویئر بھی آگئے ہیں۔
اگر اقتدار پر براجمان لوگوں کو گزشتہ صاحبان اقتدار سے انتقام اور بدنام کرنے کے حربوں سے فراغت میسر ہو توسٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے بہترین پالیساں مرتب کی جا سکتی ہیں۔ اب تھانوں کا یہ عالم ہے کہ فرنٹ ڈیسک پر درخواست لے لی جاتی ہے اور موبائل فون پر میسج بھی موصول ہوتا ہے مگر ہماری روایتی پولیس روایتی حربوں سے معاملہ گول کرنے میں خاصی مہارت رکھتی ہے ۔ گزشتہ دنوں ایک صاحب کے ساتھ تھانے میں فرنٹ ڈیسک پر درخواست دائر کرنے کا اتفاق ہوا ۔ وہ غریب آدمی تھا ۔ اگلے دن ایک اے ایس آئی نے اسے تھانے بلاوا کر خوب ڈانٹا اور اس پر ایف آئی آر کرنے کی دھمکی دی کہ تم نے ملزم پر چاقو سے وار کیا ہے ۔ ایک دن اس کے موبائل پر جو پیغام موصول ہوا تھا کہ آ پ کی درخواست پرعمل جاری ہے اگلے دن پیغام موصول ہو ا کہ میڈیکل رپورٹ کی عدم دستیابی پر فائل داخل دفتر کردی گئی ہے ۔یہ ہے ہماری پولیس کی کارکردگی ۔ محکمہ مال کی بات کریں تو اس کا نام اسی لیے محکمہ مال ہے کہ یہ مال بنانے میں ماہر ہیں ۔ گزشتہ ادوار میں دو سے چار ہزار میں رجسٹری غیر سرکاری فیس کے ساتھ انجام پاتی تھی جبکہ موجودہ دو ر میں غیر سرکاری فیس آٹھ سے دس ہزار ہے ، ظاہر ہے مہنگائی کے حساب سے ریٹ بڑھ گئے ہیں۔ میونسپل کمیٹی کے کارندے دن بھر شہر کے مختلف حصوں کا دورہ اس لیے کرتے ہیں کہ بند مارکیٹ کا دروازہ کھلنے اور کوئی غریب دکاندار بس دکان سے کچھ اُٹھا کر چلتا نہ بنے ۔ اسے ڈرا دھمکا کر غیر سرکاری فیس لے کررام کروا دیا جاتا ہے ۔ پچھلے دنوں واپڈا کی ایک ٹیم نے ایک دیہاتی کو بجلی چوری کے الزام میں قریبی پولیس چوکی پر لے جا کر اس پر ایف آئی آر کاٹنے کے لیے دبائو ڈالا ۔ بات دس ہزار سے چالیس ہزارپہنچی ۔ جو ایماندار واپڈا آفیسر چھاپہ مانے والی ٹیم کے ہمراہ تھا۔ اس نے چالیس ہزار میں غریب کے بچے پر احسان کرتے ہوئے چھوڑ دیا اور معاملہ رفع دفع کر دیا۔ ایسی گونامگوںصورت حال میں عوام جان سے زیادہ مال کو اہمیت نہیں دیتے ۔ اور سرکار ی محکموں کے کارندے مال سے زیادہ ایمان کی اہمیت نہیں دیکھتے دکھائی دے رہے ہیں۔بے چاری عوام تبدیلی کے نعرہ گذیدگی کا تریاق ڈھونڈتے ڈھونڈتے مہنگائی سے پس چکی ہے ۔ اور بقایا مدّت سسکیاں لے لے کر اس ڈسے جانے والے بھیانک نعرے پر خود کو کوس رہی ہے ۔