اللہ بخشے ماموں عاشق کو‘ کہا کرتے تھے
؎ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
ٹھہرئیے ‘پہلے ذرا ماموں عاشق کی تفصیل بیان کردوں کہ بدقسمتی سے وہ کیا میرے کوئی بھی حقیقی ماموں نہیں تھے . میری اماں انہیں ماموں کہہ کر پکارتیں تو مجھے بہت اچھا لگتا تو ان کی دیکھا دیکھی میں نے بھی انہیں ماموں کہنا شروع کر دیا۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو وہ میرے خاندان کے واحد فرد تھے جو معمول میں اردو بولا کرتے۔ درمیانہ قد‘ بے ترتیب داڑھی کالر پر اکثر میل جمی ہوئی ‘ قمیض کے دامن میں کچھ سوراخ اور بے تحاشہ محبت…
اس سے زیادہ ان کی تفصیل مجھے یاد نہیں۔ کوئی بہت پڑھے لکھے آدمی نہیں تھے۔ شاید میٹرک کیا ہو‘ لیکن بہت صاف ستھری اردو بولا کرتے۔ بیوی بچوں کا کوئی جھمیلا نہیں تھا۔ پتہ یہ چلا کہ وہ محکمہ تعلیم میں کہیں درجہ چہارم کے ملازم تھے‘ شادی بھی کر رکھی تھی پھر اچانک ان کی کایا کلپ ہوئی کہ خاندان ہی کے ایک اور بزرگ جن کا نام شیخ بشیر مرحوم تھا‘ سے ان کی قربت بڑھ گئی۔
وہ ہمارے ’’ماموں‘‘ عاشق کے حقیقی ماموں تھے‘ ان کے بارے میں پورے پاکپتن شریف میں مشہورتھا کہ وہ سونا بنانا جانتے ہیں۔ اللہ جانے وہ سونا بنانے کے کسی راز سے واقف تھے یا نہیں کہ بہت بچپن میں صرف ایک آدھ بار ہی انہیں دیکھ پایا تھا۔
واپس لوٹتے ہیں ماموں عاشق کی طرف کہ وہ سونا بنانے کی دھن میں ایسے مگن ہوئے کہ نہ نوکری کی پرواہ رہی اور نہ بیوی کی۔
سچی بات ہے مجھے درست طورپر معلوم نہیں کہ ان کی علیحدگی کی اس کے علاوہ بھی کوئی وجہ تھی یا نہیں؟ بہرحال یہ ہمارے ہوش سنبھالنے سے پہلے کی بات ہے ہم نے جب انہیں دیکھا تو وہی حلیہ تھا جو بیان کیا۔
ان کے بارے میں مشہور یہی تھا کہ وہ قبرستان میں قیام پذیر ہیں اور ملنگوں کے ساتھ ’’مچ‘‘ کے ارد گرد بیٹھتے ہیں تاہم انہوں نے کبھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا بلکہ ان کا کہنا یہ تھا کہ ’’کیمیا گری‘‘ کے دوران ان کے کپڑے جل جاتے ہیں یا سوراخ ہو جاتے ہیں لیکن ان کی اس تاویل کو عام طور سے مانا نہیں جاتا تھا‘ بہرحال وہ بچوں میں بہت مقبول تھے کہ بچوں سے ان کی محبت بے پایاں تھی کوئی ذریعہ آمدن نہ ہونے کے باوجود وہ ہر مرتبہ تمام بچوں کے لیے کوئی نہ کوئی گولی‘ ٹافی لے کر آتے اور اس اہتمام سے کہ وہ گھر میں بعد میں آتے ان کی عطر کی خوشبو پہلے پھیل جاتی اور تمام بچے ان کے ارد گرد جمع ہو جاتے اور اپنے اپنے حصے کی گولی‘ ٹکی لے کر ہی ٹلتے۔
چائے کے بہت شوقین‘ کھانا نہ ملے تو گزارا کر لیتے مگر چائے کے بغیر نہیں۔ میری نانی سب سے بڑی بہن تھیں تو اکثر ایک آدھ دن بعد ہی ان کی جلی کٹی سن کر واپس ’’سونا‘‘ بنانے کے مشن پر روانہ ہو جاتے۔ وہ کبھی کبھار کسی دھات کا ٹکڑا دکھاتے اور کہتے ’’بابو بس ایک آنچ کی کسر ہے‘‘
جب پہلی بار ان کے منہ سے سنا
؎ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
تو نہیں جانتے تھے کہ وہ اقبال کو پڑھ چکے تھے۔ آج ماموں عاشق بے طرح سے یاد آئے کہ دور حاضر میں فیس بک‘ واٹس اپ‘ موبائل فونز کے ذریعے بے شمار محبت جتلانے والے جوڑے شاید یہ نہیں جانتے کہ احترام کے بغیر محبت کا کوئی وجود نہیں۔
پاکستان میں علیحدگی اور طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح ایک خطرناک رحجان کی جانب اشارہ کررہی ہے لیکن معاشرتی انحطاط کا یہ عالم ہے کہ کوئی اس جانب نگاہ ڈالنے یا توجہ کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا۔ محبت کا زبانی اعتراف یا ایک ٹائپ شدہ پیغام بے معنی ہے اگر آپ اپنے جیون ساتھی کی عزت نہیں کرتے یہ عزت دکھاوے کی نہیں بلکہ دل سے ہونی چاہیے کہ دکھاوے کا رنگ بہت جلد اتر جاتا ہے۔
اپنے ساتھی کو احترام دیجئیے خواہ وہ شوہر ہو یا بیوی شکریہ کہنے اور معذرت کرنے کی عادت ڈالیں دل صاف ہو جائیں گے۔ بیوی جو آپ کے آرام کے لیے گھرمیں شور نہیں ہونے دیتی‘ استری شدہ کپڑے‘ پکے پکائے مزیدار کھانے اور بچوں کی دیکھ بھال بھی اس کے لیے اتنے ہی بڑے کام ہیں جتنے کہ آپ کے لیے دفتری یا کاروباری معاملات‘ اسی طرح بچوں کو سنبھالنا چاہے کتنا ہی مشکل کام کیوں نہ ہو‘ روزگار کمانا اور گھر کی تمام ضروریات پوری کرنا بھی فی زمانہ جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔
محبت کے بلند وبانگ دعوے یا آسمان سے چاند تارے توڑنے کی باتیں اتنی ہی لایعنی ہیں جتنی ہر حال میں ساتھ نبھانے کی منہ زبانی بڑ۔
ایک دوسرے کا احترام کیجیے محبت خود بخود ہو جائے گی۔ وگرنہ ماموں عاشق کے سونے کی طرح آپ کے رشتے میں بھی ہمیشہ ایک آنچ کی کسر رہ جائے گی !
خموش اے دل! بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
٭…٭…٭