جیزان ڈار
کسی بھی ملک اور قوم کے لیے رسل رسائل اور آمدو رفت کے ذرائع موٹروے یا سڑکیں وہاں کی آبادی کی سہولت کے لئے بنائی جاتی ہیں ۔ پاکستان میں موٹر ویز کا منصوبہ نواز شریف نے اپنے دور اقتدار میں شروع کیا جب ایم ٹو کے نام سے لاہور اسلام آباد موٹروے بنی، جس کے بعد لاہور فیصل آباد، ملتان سکھر ہزاراہ موٹر وے اسلام آباد پشاور موٹر وے سمیت دیگر منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچے جن کی تکمیل سے آج پاکستانی عوام بھر پور استفادہ حاصل کر رہی ہے، موجودہ پی ٹی آئی حکومت بھی سیالکوٹ تا کھاریاں موٹروے کی تعمیر کا ارادہ رکھتی ہے اور این ایچ اے حکام سیالکوٹ تا کھاریاں موٹروے منصوبے پر اربوں روپے برباد کرنے پر تیار بیٹھے ہیں اس منصوبے کی لاگت 40 ارب سے زائد کی ہے۔ اس مجوزہ موٹروے کیلئے جو روٹ تجویز کیا گیاہے وہ آبادی سے بہت دور بھارتی سرحدی علاقے کے قریب واقع ہے، اس روٹ پر مشرق کی جانب پاکستان کا نہ توکوئی ضلع یا بڑا شہر واقع ہے نہ تحصیل ۔
سیالکوٹ کھاریاں موٹروے کے روٹ کا تعین کرتے وقت اس اصول کو مکمل طور نظر انداز کرتے ہوئے موٹروے کو پاکستان کے مشرقی بارڈر کے قریب لے جایا گیا ہے، یہاں یہ بات بھی واضح کرتے چلیں کہ گجرات پاکستان کا ایک قدیم اور تاریخی شہر ہونے کے علاوہ ایک بہت بڑا صنعتی شہر بھی ہے جس کی تیار کردہ اشیاء کی ترسیل نہ صرف پورے ملک میں کی جاتی ہے بلکہ بیرون ملک بھی گجرات کی صنعتی پیداوار بھی برآمد کی جاتی ہے اوورسیز کی زیادہ تر اکثریت گجرات، جہلم، کھاریاں، منڈی بہاوالدین، میرپور میں رہائش پذیر ہے جبکہ اس عوامی منصوبے کے مکمل ہونے سے گجرات، سیالکوٹ اور لاہور کا سفر آگے سے انتہائی کم رہ جاتا ہے اور ٹریفک کا دباؤ بھی کم ہوکر رہ جائے گا خاص طور پر اوورسیز پاکستانیوں کے لیے یہ خوشخبری کی بات ہے، صوبہ پنجاب کے تین بڑے ایئرپورٹس کو موٹروے کے ذریعے اوورسیز پاکستانیوں کے گڑھ سمجھنے جانے والے علاقوں سے ملانا حکومت کی بڑی کامیابی ہوگی کیونکہ ان لوگوں کو موٹروے کی ضرورت کہیں زیادہ تھی این۔ایچ۔اے کا موجودہ تیار کردہ روٹ گجرات جی ٹی روڈ سے تقریبا ڈیڑھ گھنٹے کی دوری پر واقع ہے جبکہ گجرات سے بذریعہ لاہور جی ٹی روڈ سے سفر کرتے ہوئے بندہ کامونکی پہنچ جاتا ہے اس طرح گجرات سے اسلام آباد سفر کرنا ہو تو ڈیڑھ گھنٹے میں دینہ بھی کراس کر جاتا ہے ایسی صورت میں گجرات کی عوام اور اس کے دیگر قصبہ جات کے عوام کیوں کر موٹروے کا استعمال کریں گے این۔ایچ۔اے حکام کو چاہیے کہ موٹروے کا روٹ تبدیل کرکے سیالکوٹ ایئرپورٹ سے 6 کلومیٹر مغرب کی جانب سے گزرتے ہوئے جلالپور جٹاں سے تقریبا آٹھ سے دس کلومیٹر مغرب کی جانب رکھتے ہوئے اور دولت نگر سے تین یا چار کلومیٹر جنوب مغرب کی طرف گزار دی جائے تو اس سے گجرات شادی وال، کجاہ، پاڑیاوالی, پھالیہ, منڈی بہاؤالدین, جہلم ، لالہ موسیٰ اور آس پاس کے عوام بھی موٹروے کی سہولت سے مستفید ہو سکیں گے اور اس طرح این ایچ اے ٹول ٹیکس کی مد میں کمائی بھی زیادہ کر سکے گا اور گجرات کی صنعتی پیداوار کی دوسرے شہروں میں ترسیل کے لیے اخراجات بھی کم ہوں گے جس سے زیادہ سے زیادہ صنعتوں کو اضافہ ہوگا اس موٹروے کا روٹ گجرات کے قریب لانے سے اور جلال پور جٹاں سے 10 کلومیٹر مغرب کی جانب گزارنے سے اس موٹروے کے دونوں اطراف کی آبادی تقریبا آدھے گھنٹے میں موٹروے پر پہنچ جایا کرے گی چونکہ ابھی اس موٹروے پر کام شروع نہیں ہوا لہذا ابھی سے اسکا روٹ تبدیل کرکے گجرات کے قریب لایا جائے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ موٹروے مستقل بنیادوں پر قومی خزانے کا نقصان اور عوام کے لیے ہمیشہ کے لیے بے فائدہ رہیں گی لہذا حکومت پاکستان سے اپیل ہے کہ وہ اس منصوبے پر جلد بازی نہ کرتے ہوئے موٹروے کی تعمیر شروع کرنے میں دو سے تین مہینے تاخیر کرکے موٹروے کا روٹ گجرات کے قریب لایا جائے ۔موٹروے کا روٹ گجرات کے قریب کرنے کی صورت میں حکومت موٹروے بنانے کے کریڈٹ کے ساتھ ساتھ عوامی حمایت بھی حاصل ہو جائے گی اور اس طرح قوم کا اربوں روپیہ ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔
سیالکوٹ کھاریاں موٹروے روٹ میں اصول نظر انداز
May 06, 2021