لاہور ندیم بسرا
ملکی سیاست میں نوراکشتی کا رحجان کبھی بھی ختم نہیں ہوا۔کبھی اپوزیشن جماعتوں کا آپس میں مل کراتحاد بنانا اور حکومت کے خلاف اکٹھے ہونا یہ سب اسی ڈرامے کے ٹریلر ہیں جو ہمارے سیاسی اداکار عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ہماری عوام کا حافظہ اور ذائقہ بھی اتنا خراب ہوچکا ہے کہ مت پوچھیئے۔کل کے اتحادی ن لیگ اور پیپلز پارٹی اب ایک دوسرے کا گریبان چاک کرنے کے درپے ہیں۔این اے 249 میں دوبارہ ووٹوں کی گنتی کی بات یہاں نہیں رکے گی بلکہ بہت آگے تک جائے گی۔اب بیان بازی سے کام بڑھ کر پی پی اور ن کے لیڈر پرانے قصوں کو بھی بیان کرنا شروع کریں گے۔دراصل ن لیگ کو پیپلزپارٹی پر ایک غصہ تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم تحریک کو ڈبونے میں پی پی کا ہے اور مریم نوازاس کو بھولنے کو تیار نہیں کیونکہ مریم نواز اپنے قریبی حلقوں میں اس کااظہار کرچکی ہیں۔دوسری جانب حکومت سو مسائل کے باوجود ن اور پی پی پی اور مسلم لیگ میں ہونیوالی نوک جھوک میں بہت خوش ہے۔دو بڑی سیاسی جماعتوں کا آپس میں دست و گریبان ہونا حکومت کے لئے بہت دلچسپ صورت حال پیدا کررہی ہے۔عمران خان کی جانب سے سبھی شعبوں میں جہاں ترقی کی بات کی جاتی ہے اب ایک اور ذمہ داری عمران خان اپنے کندھوں پر اٹھانے کے لئے تیار ہوگئے ہیں الیکشن اصلاحات اور سبھی واقفان حال کا خیال ہے کہ حکومت الیکشن ریفارمز پر اپوزیشن جماعتوں کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔اگر ایسا ہوگیا تو تمام دھبے جو اپوزیشن جماعتیں حکومت پر لگاتی ہے وہ یقینا دھل جائیں گے۔آئندہ کا سیاسی نقشہ بھی بڑا دلچسپ بنتا نظر آرہا ہے کہ ن لیگ کی قیادت شہباز شریف کے پاس آتی نظر آرہی ہے اس سلسلے میں وہ اپنی کوششیں تیز کرچکے ہیں دراصل وہ پی ٹی آئی کے ساتھ بھی مفاہمت کی پالیسی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔اس لئے وہ سبھی جماعتوں اور اداروں کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار بھی ہیں۔مریم نواز کا سیاسی مستقبل ان کے والد کے ساتھ جڑا ہے اگر ان کے والد کوئی نیا این آر او مریم نواز کے لئے کسی شرط پر حاصل کر لیتے ہیں اور وہ وقتی طور پر خاموشی کے ساتھ بیٹھ جاتی ہیں تو ان کا سیاسی مستقبل قائم رہے گا اگر ایسا نہ ہوا تو سیاست بھی ختم ہوسکتی ہے اور پھر انہیں کسی دوسرے گھر کا مہمان بھی بنایا جاسکتا ہے۔بلاول بھٹو نے اپنے سیاسی قد میں اضافہ کیا ہے اور این اے 249 میں اپنے مخالفین کو جس طرح چت کیا ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اچھا سیاسی کھلاڑی بن چکا ہے جو روز بروزمزید پختہ ہورہا ہے جو پی پی کے لئے بڑی خوش آئند بات ہے۔دوسری جانب جو باقی مسائل کے ساتھ حکومت کے لئے ایک چیلنج کورونا کا بھی ہے اس عید سے قبل کیا شہری حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے یا نہیں۔اس کا تعین ابھی حکومت بھی نہیں کرسکی کیونکہ عوام ایس او پی کا دکھاوا کررہی ہے حقیقی معنوں میںاحتیاطی تدابیر کی پابندی نہیں کر رہی۔جس کی وجہ سے حکومت خود اس صورت حال سے چکرا کر رہ گئی ہے۔
اس لیے یہ رمضان اورعید الفطر سبھی صوبوں کے لیے ایک امتحان سے کم نہیں ہے کیونکہ پورا ملک ہی اس وقت کورونا کی لپیٹ میں ہے اور اس کیلئے حکومت سبھی سٹیک ہولڈر ز سے سر جوڑ کر بیٹھی ہوئی ہے۔پنجاب بھی دوسرے صوبوں کے ساتھ کورونا سے نمٹنے کے لئے اقدامات کررہا ہے اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان خان بزدار تمام تر وسائل کو بروئے کار لارہے ہیں۔ویکسی نیشن کی رپورٹنگ مسلسل کی جارہی ہے ایس او پی کے لے جو بھی اقدامات کئے جاسکتے ہیں وہ کئے جارہے ہیں۔
اس حوالے سے پاک فوج رینجرز پولیس اورضلعی انتظامی ادارے بھی اپنا کام کررہے ہیں مارکیٹوں کی نگرانی کی جارہی ہے۔حکومت تو اپنا کام کررہی ہے اب کام عوام کا ہے کہ وہ حکومت کے ایس او پی کو کیسے فالو کر سکتے ہیں عوام میں شعور کی بیداری کے لئے حکومت نے ہر فورم کا استعمال کیا ہے۔اب اس میں ذمہ داری حکومت کے علاوہ خود عوام کی بھی ہے کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں۔اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے لئے اب علماء کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا پر مسجد و منبر سے اس وباء کی احتیاط کے حوالے سے بات کی جانی چاہئے کیونکہ جب تمام معاشرے کے سبھی لوگ شامل ہوکر اس پر بات نہیں کریں گے اس وباء کا مقابلہ اکیلے حکومت نہیں کرسکتی