احسان الحق،رحیم یار خان
ihsan.nw@gmail.com
پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں ملکی سیاست میں ’’ایشوز‘‘ کو بڑا کلیدی مقام حاصل ہے ۔کسی بھی ایک ایشو کو بنیاد بنا کر یہاں کے سیاستدان کئی کئی سال تک عوام کے جذبات سے کھیلتے رہتے ہیں سیاسی رہنما آئین کے تحت اپنے حقوق اور صوبوں کے حقوق کی بات تو کرتے ہیں لیکن آئین میں درج اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کو بھول جاتے ہیں۔ جس کا اصل مقصد سیاسی رہنما آئین کے تحت اپنے حقوق اور صوبوں کے حقوق کی بات تو کرتے ہیں لیکن آئین میں درج اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کو بھول جاتے ہیں۔سیاسی رہنما آئین کے تحت اپنے حقوق اور صوبوں کے حقوق کی بات تو کرتے ہیں لیکن آئین میں درج اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کو بھول جاتے ہیں۔ جس کا مقصدعوام کی ہمدردیاں سمیٹنا اور زیادہ سے زیادہ ووٹ لینا ہوتا ہے۔پچھلے دو تین عام انتخابات میں جنوبی پنجاب کی سیاست پر اگر نظر ڈالی جائے تو نئے صوبے کا قیام ان انتخابات میں بڑا ہی مقبول’’لولی پاپ‘‘ رہا ہے اورگمان کیا جا رہا ہے کہ نئے عام انتخابات میں بھی جنوبی پنجاب پر مشتمل نیا صوبے کے قیام کا نعرہ ایک بار پھر’’مقبولیت‘‘ حاصل کرے گا۔ اس بار یہ نعرہ اس لحاظ سے مختلف ہو سکتا ہے کیونکہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا قیام اور یہاں ایک ایڈیشنل چیف سیکرٹری،ایک ایڈیشل آئی جی اور کئی سیکرٹریز کی تعیناتیوں اور وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کے لئے کئی ارب روپے کی فنڈز مختص کرنے جیسے اقدامات کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرے گی۔وزیر اعظم عمران کے گزشتہ ہفتے کے دوران اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران اپنے اولین دورہ ملتان اور دوسرے دورہ جنوبی پنجاب کے دوران انہوں نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ اور ضلع ملتان کے لئے تو اربوں روپے کے ترقیاتی پیکجز کا اعلان کیا مگر حیران کن طور پروہ انہوں نے مجموعی طور پر جنوبی پنجاب کے اضلاع خاص طور پر انتہائی پسماندہ اضلاع کے لئے کسی ترقیاتی پیکج کا اعلان نہیں کیا جس سے یہاں کے عوام میں تشویش دیکھی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ملتان سے قبل عوام توقع کر رہی تھی وزیر اعظم کا یہ دورہ ،دورہ ملتان کی بجائے دورہ جنوبی پنجاب ہو گااور شائد عمران خان کا یہ دورہ وزیر اعظم کے ان وعدوں کی تکمیل کا بھی وقت ہو جو وزیر اعظم نے عام انتخابات2018ء سے قبل کئے تھے اور جن وعدوںکی بنیاد پر ہی عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیئے تھے لیکن شائد جنوبی پنجاب کے عوام کو نئے صوبے کے قیام کے لئے ابھی ایک بار اور امتحان سے گزرنا ہو گا۔وزیر اعظم عمران خان کو دورہ ملتان کو اگر مخدوم شاہ محمود قریشی ’’شو‘‘ کہا جائے تویہ بے جانہ ہو گا کیونکہ اس دورے کے دوران وزیر اعظم کے ہمراہ نہ تو ’’صوبہ جنوبی پنجاب محاذ‘‘ کے سربراہ و وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار ساتھ تھے اور نہ ہی جنوبی پنجاب میں وزیر اعظم عمران خان کے سب سے اہم اتحادہ وفاقی وزیر چوہدری طارق بشیر چیمہ ان کے ہمراہ تھے جبکہ حیران کن طور پراس دورے کے دوران جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلی مدعو کیا گیا کہ جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔بعض ذرائع کے مطابق ابتدائی طور پر ان تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو مدعو کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا مگر وزیر اعظم جہانگیر ترین گروپ سے تعلق رکھنے والے ایم این ایز اور ایم پی ایز سے اس وقت ملاقات نہیں کرنا چاہتے تھے اس لئے فیصلہ کیا گیا اس موقع پر صرف چند ایم این ایز اور ایم پی ایز کو ہی بلایا جائے اور پھر اطلاعات کے مطابق مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپنی مرضی کے چند اراکین اسمبلی کو اس موقع پر مدعو کیا لیکن مجموعی طور پر وزیر اعظم کے دورے کو اس لحاظ سے ایک کامیاب دورہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ ان کے اس دورے سے ان تمام افواہوں کی نفی ہو گئی کہ جن میں کہا جا رہا تھا پی ٹی آئی کی حکومت نے فی الحال جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کا فیصلہ واپس لے لیا ہے ۔جس پر پورے جنوبی پنجاب کے عوام میں سخت غم و غصہ دیکھا جا رہا تھا ۔
رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے دو ایم این ایز اور ایک ایم پی اے کی جہانگیر ترین گروپ میںشمولیت کے بعد گزشتہ ہفتے کے دوران یہاں سے تعلق رکھنے والے پی پی پی کے دو ایم پی ایز سردار غضنفر علی لنگاہ اور رئیس نبیل احمد کی وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ہونے والی ملاقات اور ان پر اپنے مکمل اعتماد کے اظہار کے بعد ملکی سیاست میں ضلع رحیم یار خان ایک بار پھرابھر کر سامنے آیا ہے، اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں جنوبی پنجاب کی سیاست میں ضلع رحیم یار خان کا ایک انتہائی اہم کردار ہو گا۔خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عید الفطر کے بعد جب ملکی سیاست کی بساط پر نئے کھیل شروع ہونگے تو جہانگیر ترین گروپ میں بعض نئے چہرے بھی شامل ہو سکتے ہیں جن میں رحیم یار خان سے پی ٹی آئی کے ایک اور ایم پی اے کی شمولیت بھی متوقع ہے۔رحیم یار خان پی ٹی آئی اس وقت جہانگیر ترین گروپ اور مخدوم خسرو بختیار گروپوں میں واضح طور پر تقسیم ہو چکی ہے اور آئندہ عام انتخابات میںیہ دونوں گروپ کس پلیٹ فارم سے ان انتخابات میں حصہ لیتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ مخدوم خسرو بختیار کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے مسلسل دو انتخابات کسی ایک سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے نہیں لڑے اور ہر نئے انتخابات کے موقع پر وہ ہمیشہ نیا سیاسی پلیٹ سے حصہ لیتے ہیں جبکہ جہانگیر گروپ میں شامل ہونے والے پی ٹی آئی کے ایم این ایز اور ایم پی اے سے کوئی بھی پکا انصافی نہیں ہے۔رحیم یار خان میں پی ٹی آئی کے دو واضح دھڑوں میں بٹنے کا سب سے زیادہ نقصان یہاں کے عوام کے اٹھانا پڑ رہا ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اپریل کے دوران رحیم یار خان کا دورہ کرنا تھا اور اس دورے کے دوران ضلع رحیم یار خان کے لئے اربوں روپے کا ترقیاتی پیکج بھی متوقع تھا مگر یہاںسے تعلق رکھنے والے دو ایم این ایز اور ایک ایم پی اے کی جہانگیر ترین گروپ میں شمولیت کے باعث وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا دورہ رحیم یار خان چار بار ملتوی ہو چکا ہے۔