امین یوسف
کیا ملک میں پارلیمانی نظام ناکام ہوگیا یا اس نظام سے ہم فائدہ نہیں اٹھا پائے۔ عوام کو تکالیف سے نکالنا تو دور کی بات ہم نے بہتر زندگی کی امید سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس میں قصور وار کون ہے۔ کیا جمہوریت کو اصل روح کے مطابق نہیں آگے نہیں بڑھایا جاسکتا۔ ہم کیوں ہر سطح پر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے بجائے عوامی بھلائی اور ملک کے استحکام کے لئے ایک ساتھ مل کر کام کرنے میں یقین نہیں رکھتے۔صدارتی نظام یا پارلیمانی نظام، ہمارے لئے کیا مناسب اور بہتررہے گا، یہ وہ چند سوالات اور لوگوں کے ذہنوں میںپائے جانے والے شکوک و شبہات ہیں۔جن کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا۔مگراس تمہید کا مقصد یہ تھا کے ملک میں صدارتی نظام کے ذریعہ پاکستان میں موجودہ پارلیمانی نظام کو تبدیل کرنے پر ہونے والی بحث ایک بار پھر زور پکڑتی جارہی ہے یہ تجویز اس قیاس پر مبنی ہے کہ ایک مضبوط صدر سیاسی نظام میں استحکام لائے گا اور اسے بدعنوانی سے پاک کرے گا۔ ہماری تاریخ نے بار بار اس مفروضے کی زوال کو ثابت کیا ہے ، تاہم اسے ہمیشہ کچھ حامی ملتے ہیں۔ ہم نے پارلیمنٹ کے نظام کے ساتھ ساتھ صدارتی نظام بھی آزمایا تھا۔ تاہم ، ہم ان میں سے کسی کو بھی آسانی سے چلانے میں ناکام رہے۔جمہوری نظام حکومت رکھنے والے ممالک نے اپنی تاریخ ، ثقافت اور عوام کی امنگوں پر مبنی پارلیمانی یا صدارتی نظام کا انتخاب کیا۔ برطانیہ ، کینیڈا ، جاپان ، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ وغیرہ نے پارلیمانی جمہوریت کا انتخاب کیا۔ جبکہ امریکہ ، فرانس اور جرمنی وغیرہ نے صدارتی نظام اپنایا۔ یہ تمام ممالک اپنے قومی اور بین الاقوامی امور کو آسانی سے چلا رہے ہیں اور اپنے شہریوں کو امن ، خوشحالی اور انصاف پر مبنی زندگی مہیا کررہے ہیں۔ ان قوموں نے میں سے کسی نے بھی کبھی اپنے نظام کو دوسرے نظام کی جگہ لینے کا نہیں سوچا ،لیکن پاکستان میں ہر تھوڑے عرصے کے بعد ایک نئے نظام کا شوشہ چھوڑ کر عوام کو ایک ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔ انہیں اس بات کی امید ہوتی ہے شاید آنے والے نئے نظام میں ان کے لئے کوئی بھلائی لکھی ہو۔اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایسی مثالیںملتی ہیں جب بہت سے ممالک کونظام کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ۔ لیکن ان قوموں نے دانشمندی اور سیاسی صلاحیتوں کے ذریعہ صورتحال کوسنبھالا۔پاکستان میں حکومتی نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی یہ ایک طویل اور مشقت طلب مسئلہ ہے۔ جوحکمراںپاکستان کے قیام سے لے کرآج تک اس ملک ایک موثر اور مضبوط بلدیاتی نظام نہیں لا سکے وہ ملکی نظام کو کیا مستحکم کریں گے۔ عوام نے آئین اور قانون کی پاسداری کے دعوے اور نعرے تو سنے ہیں مگر لوگوں کی مشکلات آج تک دور نہ ہو سکیں۔ ہمارے سیاسی رہنما آئین کے تحت اپنے حقوق اور صوبوں کے حقوق کی بات تو کرتے ہیں لیکن آئین میں درج اختیارات کی بلدیاتی اداروں اور نچلی سطح تک منتقلی کو بھول جاتے ہیں۔آخری مرتبہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں شہری حکومتوں کا نظام لایا گیا جو خاصہ موثر ثابت ہوا لیکن اپنے آپ کو سیاسی اور جمہوری کہنے والی حکومتوں کے دور میں نہ اس نظام کو ختم کردیا گیا بلکہ ایسی ترامیم کی گئیں جس کے تحت بلدیاتی اداروں کے سارے اختیارات واپس لے لئے گئے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔ہم بات کررہے تھے ملک میں ایک نئے نظام اور نئی طرز حکومت کی۔
کیا اس وقت ملک کو صدارتی نظام کی ضرورت ہے؟کچھ لوگوں کا مؤقف ہے کہ ہمارا موجودہ نظام حکومت کھوکھلا ہو چکا ہے یہی وجہ ہے کہ پارلیمان کے ہوتے ہوئے حکومت کو بار بار آرڈیننس جاری کرنیکے لئے صدر کی طاقت کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو صدارتی طرز حکومت کو اپنانا ہوگا اور پارلیمانی نظام کو ختم کرنا ہوگا۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ صدارتی نظام میں ریاست کے سربراہ کا انتخاب عام طور پر براہ راست انتخابات کے ذریعے ہوتا ہے۔ایک حلقے کی رائے یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں رائے دہندگان کے پاس انتخاب کے محدودوسائل ہیں۔ وہ جاگیردارانہ نظام اور سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے اپنی خواہش کے مطابق ووٹ کا استعمال نہیں کر سکتے ۔کچھ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ حکومت کی پارلیمانی شکل کی ناکامی کے پیش نظر ، رائے شماری کے لئے صدارتی نظام کا مطالبہ کسی حد تک لوگوں کی توجہ حاصل کر سکتاہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے 18ویں ترمیم کے ذریعے صدارتی اختیارات سے خود دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس ترمیم کے تحت تعلیم اور صحت کے شعبوں کو صوبے کے حوالے کردیا گیا ان کا جو حشر کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔گذ شتہ کئی سالوں سے کراچی مایوسی کے جس عذاب سے گزررہا ہے وہ سب جانتے ہیں۔مرکز اور سندھ میں حکومتیں ایک صفحے پر نہیں ہیں۔سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعدپاکستان نے پارلیمانی جمہوریت سے لے کر صدارتی حکومت تک ، فوجی حکومتوں کے لئے مختلف طرح کی آئینی شکلوں کا تجربہ کیا ہے۔ حالیہ دور میں پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک ، پاکستان کے سیاسی نظام حکومت نے بہت سارے چیلنجوں ، تصادم اور تنقید کا سامنا کیا ہے۔ بدقسمتی سے ، پاکستان نے کثیر النوع آئینی اور سیاسی تاریخ کی تشکیل سے استفادہ نہ کیا ۔
پاکستان میں مختلف نسلی ، لسانی ، ثقافتی ، مذہبی ، فرقہ وارانہ ، اور آبادی کے طبقات ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ پاکستان کے لئے ایک مناسب اور موزوں ترین سیاسی نظام حکومت کا انتخاب ایک وسیع ، پیچیدہ ، اور ایک مشکل سوال ہے ۔پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ نے صدارتی نظام کی بجائے پارلیمانی نظام پر زور دیاہے۔ پاکستان کی پوری آئینی اور سیاسی تاریخ میں ، صدارتی نظام کا اپنی اصل شکل میں تجربہ نہیں کیا گیا بلکہ یہ مبہم طاقت کے استعمال کا زیادہ شکار رہا،لہٰذا اسوقت صدارتی نظام کی نئی بحث کو چھیڑنا نا مناسب ہوگا ۔ کوئی بھی نظام اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک یہ حکومتی یا سیاسی نظام ، اپنی خواہش اور تقاضوں کے ساتھ خلوص اور شفافیت کے ساتھ مطابقت نہ رکھتا ہو۔ملک میں سیاسی محاذ آرائی اور سیاسی رشہ کشی عروج پر ہے ۔سیاسی جماعتیں کسی ایک نکتے پر متحد ہونے کے بجائے دست وگریبان ہیں۔ خود اپوزیشن کی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر نہیں ہیں ۔ملک میں کون سا طرزحکمرانی ہونا چاہیئے اس سے عام لوگوں کو کوئی غرض نہیںان کا مسئلہ بنیادی سہولتوں کی دستیابی، روزگار، بچوں کیلئے اچھی تعلیم، بیماری کی صورت میں علاج ، پرسکون اور پر امن ماحول ہے۔ ہمیں اس بات پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ہمیں کون سا نظام درکار ہے، جو بھی ایک بار فیصلہ کرلیا جائے اور اس پر موثر طریقے سے عمل کرکے ملک کو مستحکم اور خوشحال بنانے کی طرف پورا زور لگادیا جائے۔صدارتی ںنظام ہو یا بلدیاتی، ضرورت اس بات کی ہے کہ آئین میں درج شہری حکومت اور بلدیاتی نظام کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کیا جائے۔