سیرت و کردار کی پاکیزگی

پیر احمد ثقلین حیدر

 عربی جو بڑی وسیع اور ثروت مند زبان ہے کی ایک بڑی شاندار اور جاندار کہاوت ہے کہ ’’الفضل ماشھدت بہ الأ عدائ‘‘ 
فضیلت وہ ہے کہ دشمن بھی جس کی شہادت اور گواہی دیں۔ انسان کی فطرت اور عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات اپنی شخصیت اپنے افعال و احوال کو بہت اچھا خیال کرتا ہے اور ذکاوت و فراست کیساتھ اعلیٰ ترین مرتبے پرفائز سمجھتا ہے۔ مگر محض ایسا سمجھ لینے سے اور ایسا محسوس کر لینے سے ایسا ہو نہیں جاتا کردار  کی بلندی تو یہ ہے کہ کوئی دشمن بھی آپ پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ ہم کس نبیؐکے اُمتی ہیں کہ جنہیں بیگانے بھی صادق اور امین کہہ کر پکارتے تھے۔ دین اسلام کا بد ترین مخالف اور آپؐکا سب سے بڑا دشمن ابو جہل بھی بدر کے میدان میں اخنس بن شریق کے سامنے یہ کہنے پر مجبور ہوگیا تھا کہ محمدؐ قول کے پکے اور زبان کے سچے ہیں۔ عظمت کردار تو دیکھئے کہ 1400 سال بعد بھی جب ایک غیر مسلم دانشور مائیکل ایچ ہارٹ دنیا کے 100 عظیم انسان چنتا ہے تو سب سے پہلے ہمارے آقا و مولیٰؐکا اسم مبارک لکھتا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ آج ہم اُن کے نام لیوا کس جانب جارہے ہیں۔ ذرا تاریخ اسلام کو سامنے رکھیئے تو اعلیٰ اخلاق کے ایک سے بڑھ کر ایک ایسے دل گداز واقعات ملتے ہیں کہ دشمن بھی انگشت بدنداں ہو جاتے ہیں۔ 
 حضرت امام علی زین العابدین جنہیں دنیا سید الساجدین جیسے باوقار اور دلآویز لقب سے یاد کرتی ہے۔ آپ قافلے    کے ساتھ حج کے سفر پر جارہے تھے قافلے نے ایک جگہ پر پڑائو کیا دوپہر کا وقت تھا آپ اپنے خیمہ میں جلوہ افروز تھے کہ ایک شخص آپ کے خیمہ میں داخل ہوا مگر جب اس کی نظر آپ کے چہرے پر پڑی تو فوراً واپس پلٹ گیا ۔ آپ نے آواز دے کر اسے بلایا اور مدعا پوچھا تو اس نے پانی طلب کی آپ نے اسے پانی کا کٹورہ دیا۔ جب وہ پی چکا تو کہنے لگا کہ شاید آپ نے مجھے نہیں پہنچانا؟ یہ سنتا تھا کہ آپ کی چشمان اقدس میں نمی آگئی اور فرمایا میں تجھے کیسے بھول سکتا ہوں میرے بابا پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والوں میں تو سرفہرست تھا۔ جب یہ الفاظ سنے تو کہنے لگا کہ پھر آپ نے مجھے پانی کیوں پلایا؟ گلشن اہل بیت کے گل رعنا سن کر یوں گویا ہوئے کہ ’’وہ تیرا کردار تھا یہ میرا کردار ہے‘‘ ۔ اس واقعہ میں صرف اک مختصر ترین جملے میں سیرت و کردار کے معانی و مفہوم سے لے کر اہمیت و مقاصد تک ہر شے کو سمیٹ دیا گیا۔
 آج ہمارے اخلاقی انحطاط کا ہمہ گیر اور ہمہ پہلو سفر اتنی تیزی سے جاری ہے کہ انسان پریشان ہو جاتا ہے۔ کیا ہماری زندگیوں کا کوئی ایسا عمل رہ گیا ہے جو قابلِ تقلید و تعریف ٹھہرے، کیا آج کوئی شعبہ حیات ایسا نظر آتا ہے جہاں اخلاقی قدریں پوری آپ و تاب پر دکھائی دیں۔ کوئی ادارہ ایسا  نظر آتا ہے جہاں سیرت سازی کی جاتی ہو جہاں تزکیہ اور تصفیہ کی منازل سے گزارا جاتا ہو۔ کوئی شخصیت ایسی نظر آتی ہے جس کو دیکھ کر روح کے آنگن میں بہار اتر آتی ہو ۔ 
 تنگ نظری، ہٹ دھرمی، بد دیانتی، دھوکہ دہی، وعدہ خلافی، ناپ تول میں کمی، منفی سوچ، دنیا پرستی، شخصیت پرستی اور اپنے خیالات و نظریات میں شدت پسندی ہماری عادت کا حصہ بن گئی ہے۔ دوسروں پر اُن کی غیر موجودگی میں الزام اور بہتان لگانا، ان کی کمزورویوں کو نہ صرف بیان کرنا بلکہ زیادہ سے زیادہ بڑھا چڑھا کر اُن کا چرچا کرنا ہمارا محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔ 
ہم تو ان لوگوں کے متعلق بھی اپنے دل میں بد گمانی اور نفرت بھرے جذبات رکھتے ہیں جن سے ہم زندگی میں ایک مرتبہ بھی نہیں ملے ہوتے۔ مختلف مناظر کو ہم اپنے مفادات کی عینک سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ وہ اغیار جو کل تک ہماری مثال دیا کرتے تھے ہمارے شاندار اخلاق ہمارے پاکیزہ کردار اور ہماری قابل تقلید سیرت کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے آج وہ ہماری ظاہری و باطنی تضادات اور ہماری گفتار و کردار دیکھ کر ہم پر انگلیاں اٹھاتے ہیں ۔ سچ پوچھیے تو ہمارا کوئی بھی شعبہ حیات ایسا نہیں جو اس زوال سے مکمل محفوظ ہو ۔ آج کتنے مذہبی رہنماء اور روحانی پیشوا ایسے ہیں جو اخلاق کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہوں؟ جن کو دیکھ کر قرون ِ اولیٰ کے بزرگوں کی یادیں تازہ ہو جائیں؟ جن کی مجلس میں بیٹھ کر کوئی خود کوچھوٹا محسوس نہ کرے۔ جہاں امیر و غریب اور وزیر و فقیر کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھا جائے۔ جن کی صحبت و قربت میں رہ رہ کر دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کا خوف پیدا ہو۔ جہاں روحانی آسودگی اور قلبی اطمینان میسر ہو اور پھر جنہیں ایک باشعور، معاملہ فہم، بالغ نظر اور باریک بین شخص اپنا رول ماڈل بنا سکے۔ جن کا دامن دنیا کی آلودگی سے پاک نظر آئے۔ 
اعلیٰ اخلاقی اقدار تو مہذب اور متمدن معاشروں کی بنیاد ہوتی ہیں ان کا پیرہن ہوتی ہیں مگر افسوس کہ ہم نے اپنے شاندار پیرہن کو اپنے ہاتھوں سے ہی داغ دار کر لیا۔ 
 خود پرستی اور شہرت پرستی نے ہمیں اندھا کر دیا۔ نمود و نمائش، آسائش و آرائش اور طعام و رہائش کے تار عنکبوت میں ہم یوں الجھے کہ فکری غربت ، ذہنی طفولیت اور منزل سے نا آشنائی ہمارا مقدر بن گئی۔ سنگ و خشت سے بنے چند گھروندے بنانا اور پھر ’’خشوع و خضوع‘‘ سے ان کی حفاظت کرنا ہمارا مقصد حیات بن گیا ہم بھول گئے کہ روپیہ پیسہ تو بعض اوقات پچھلوں کے لیے عذاب اور آزمائش بھی بن جاتا ہے۔ انسان کی اصل دولت اور سرمایہ تو اس کا کردار ہے جو اگر اچھا اور اعلیٰ ہو تو انسان کے دنیا سے جانے کے بعد بھی اسے زندہ و جاوید رکھتا ہے۔ 
بلا شبہ سیرت و کردار کی پاکیزگی اللہ کریم کی ایک خاص نعمت ہے اور یہ نعت صرف انہی کو ملتی ہے جن سے وہ راضی ہوتا ہے۔ سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کے انتہائی بلیغ جملے پر اختتام کرتے ہیں جس میں آپ نے پوری انسانی زندگی کو سمودیا اور سیرت و کردار کے پورے نصاب کو سمجھا دیا کہ دنیا میں آئو تو اس طرح کہ تم رو رہے ہو اور دنیا ہنس رہی ہو اور دنیا سے جائو تو اس طرح کہ تم ہنس رہے ہو اور دنیا رو رہی ہو۔ 

ای پیپر دی نیشن