حکومت نے پچھلے دنوں ہنگامہ خیز واقعات کے بعد اقتدار سنبھالا ہے۔ عمران خان کے حالیہ جلسوں میں شرکا کی تعدادکو مدِّنظر رکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نوجوان نسل میں ان کی حمایت میں ان کے اقتدار سے علیٰحدہ ہونے سے کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ اضافہ ہوا ہے۔ اس لئے حکومت مسائل سے دوچار ہے۔ عوام مہنگائی کی وجہ سے خاصے پریشان ہیں اس لئے نئی حکومت سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات کرے گی جس کی وجہ سے مہنگائی میں کمی واقع ہوگی۔ لیکن حکومت کے لئے عوام کو کسی بھی قسم کی سہولت فراہم کرنا ، ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔پچھلے دنوں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کا فیصلہ عوام کی مشکلات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے واپس لے لیا گیا۔ لیکن حکومت کو چاہیئے کہ عوام کو اعتماد میں لے کر انہیں اس بات کے لئے ذہنی طور پر تیار کرے کہ چونکہ یوکرائن کی جنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اس لئے پاکستان کو بھی قیمتیں بڑھانا پڑیں گی۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے واشنگٹن میں آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کرکے قرضہ کی رقم 6 ارب ڈالر سے بڑھا کر 8ارب ڈالر کروالی ہے اور آئی ایم ایف کا معاہدہ جو ستمبر 2022ء کو ختم ہو رہا تھا مزید ایک سال کے لئے بڑھا دیا گیا ہے۔ اس معاہدہ کی رو سے پی ٹی آئی کی حکومت نے 28 فروری کو جو پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کی تھی اس پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔ جس کے نتیجہ میں پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں فوری طور پر اور بعد میں بھی مسلسل اضافہ کرنا پڑے گا۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی میں کافی اضافہ ہوگا۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں لہٰذا ان کی طر ف سے احتجاج ہونے کا بھی امکان ہے ۔لیکن حکومت کو یہ ناپسندیدہ اور مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے۔ ورنہ خدانخواستہ معیشت کے بحران کا شکار ہو کر سری لنکا جیسے سنگین حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔سیاسی حکومت کی ترجیح ہوتی ہے کہ و ہ عوام کو بنیادی سہولیات بہم پہنچائے۔ مہنگائی میں اضافہ کو روکے تاکہ وہ آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکے۔ بد قسمتی سے حکومت نے بہت مشکل حالات میں ملک کی باگ ڈوڑ سنبھالی ہے۔ اس لئے اسے انتہائی سنجیدگی اور حکومت کے ساتھ ملک کی معیشت کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے انتھک کوشش کرنا پڑے گی۔ گزشتہ حکومت پر الزام تراشی اور ’’خزانہ خالی‘‘ ہونے کا روایتی رونا رونے کی بجائے فوری طور پر اہم اور ناگزیر فیصلے کرنے ہوں گے اور حکومت اور اپنی مقبولیت میں کمی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی گرتی ہوئی قدر کو روکنے کے لئے زرمبادلہ کے ذخائر میں فوری اضافہ کرنا ہوگا۔ وزیر خزانہ کو چاہیئے کہ تمام دوست ممالک کو جن کے ہم مقروض ہیں مذاکرات کے ذریعے قرضوں کی اقساط کی ادائیگی میں کچھ عرصے کے لئے عارضی طور پر چھوٹ کے لئے راضی کیا جائے۔ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کی رفتار پر نظر ثانی کی جانی چاہیئے تاکہ ایسے منصوبے جو مکمل ہونے کے قریب ہیں زیادہ رقم فراہم کرکے جلد از جلد مکمل کئے جائیں اور طویل المعیاد منصوبے جو ابھی شروع نہیں کئے جا سکے فی الحال روک دیئے جائیں۔ بجٹ کا جاری خسارہ کم کرنے کے لئے برآمدات میں اضافے اور درآمدات میں بڑی مقدارمیں کمی کرنا پڑے گی۔ برآمدات میں اضافے کے لئے جس خام مال کی ضرورت ہے اس کی درآمد کے علاوہ تمام ایسی درآمدات پر پابندی عائد کر دی جائے جو امیر طبقے کے زیر استعمال ہیں۔جس ملک میں عوام کو دو وقت کی روٹی مشکل سے میسر ہے اس ملک میں کتے اور بلی کی بند ڈبوں میں خوراک کی درآمد کا کیا جواز ہے۔
پاکستان میں ہر طرح کی گاڑیاں تیار ہو رہی ہیں لیکن پھر بھی بے شمار زرمبادلہ انتہائی قیمتی گاڑیوں کی درآمد پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ ان گاڑیوں کی درآمد پر مکمل پابندی ہونی چاہیئے۔ ان پر ڈیوٹی بڑھانے کے باوجود ان کی درآمد بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔میک اَپ کا سامان۔ کھلونے اور دوسری غیر ضروری اشیاء پاکستان میں دستیاب ہونے کے باوجود درآمد کی جا رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پچھلے نو ماہ یعنی جولائی 2021ء سے مارچ 2022ء کے دوران پاکستان کا تجارتی خسارہ 35ارب ڈالر سے بھی زیادہ بڑھ گیا ہے۔چونکہ ملک کی معیشت کی صورتحال تشویشناک ہے اس لئے حکومت کو ذرا سا بھی وقت ضائع کئے بغیر ہر اس شہ کی درآمد پر پابندی لگا دینی چاہیئے جو پاکستان میں تیار ہو رہی ہے۔اس طرح سے دو فائدے ہوںگے۔ ایک تو پاکستانی روپے کو ڈالر کے مقابلے میں استحکام حاصل ہوگا اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ مقامی صنعت جو درآمدی اشیاء کی بھر مار کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہے ، اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکے گی۔ لوگوں کو روزگار مہیا ہو گا اور ان کی قوت خرید میں اضافہ ہوگا۔مندربالا تمام اقدام قابل عمل ہی نہیں بلکہ معیشت کے استحکام کے لئے ناگزیر ہیں۔اس لئے اُمید ہے کہ ان پر حکومت سنجیدگی سے غور کرے گی۔
حکومت کی پہلی ترجیح کیا ہونی چاہیئے؟
May 06, 2022