دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا 

May 06, 2022

عیدالفطر کے بعد قومی سیاست میں ہلچل کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا ، مدینہ منورہ میں حکومتی وفد کی آمد پر پی ٹی آئی کی نامناسب اور  نازیبا نعرے بازی پر عمران خان اور شیخ رشید سمیت دیگر پر مقدمات کا اندارج ہو یا فرح خان ) فرح گوگی) کے خلاف نیب کا متحرک ہونا سب ہی کچھ حزب اقتدار اور حزب اختلاف میںتناو کو ظاہر کرتا ہے  ، سچ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے  چیرمین کی جانب سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ  یا آزادی مارچ کا اعلان  ایک بار پھر میں نے مانوں کی پالیسی کا عملی ثبوت ہے ۔سابق وزیر اعظم اور ان کے ساتھی تواتر کساتھ  میڈیا پر یہ موقف پیش کررہے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت بیرونی مداخلت کے نتیجے میں  ختم ہوئی وہ  کسی طور پر یہ ماننے کو تیار نہیںکہ عمران خان اپنے اتحادیوں ہی نہیں پارٹی کو بھی  کو  متحد ومتفق رکھنے  میںناکام رہے جس کا نتیجہ  تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں برآمد ہوا، سیاسی  تجزیہ نگاروں کی اکثریت اس پر حیران ہے کہ آخر  سابق وزیر اعظم کو  ایک بار پھر اقتدار میں آنے کی کیونکر جلدی ہے ،  کیا  وہ رواں سال کے اختیتام سے قبل ہی خود کو وزارت عظمی کے منصب پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں، سیاست کی تھوڈی بہت بھی شد بد رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ سیاسی کھیل میں جہاں بصیرت او ر دوراندیشی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں وہی صبر  وحکمت کا عمل دخل بھی کلیدی اہمیت کا ہے ، دنیا کے ہر جمہوری ملک میں  سیاسی شخصیات اگر اقتدار میںآتی ہیں تو انھیں کسی نہ کسی وجہ کی بنا پر  اقتدار سے رخصت بھی  ہونا پڑتا ہے ، حالیہ دنوں جس سیاسی شخصیات نے رائج نظام کے نتائج کو تسلیم کرنے  سے سرعام انکار کیا وہ ڈونلڈ ٹرمپ تھے جنھیں بالاآخر صدارتی انتخابات میں شکست ہونے پر ریاستی قوت کے زریعہ وائٹ ہاوس سے بے دخل کیا گیا ،  ایک بات  طے ہے کہ جمہوری نظام میں جو شخص بھی مروجہ قوائد وضوابط ماننے سے انکار کرڈالے اس کے روشن سیاسی مستقبل کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ، مثلا  ہمارے ہاں جب سابق وزیر اعظم نوازشریف عدالتی فیصلہ کے نتیجے میں  پانامہ کیس میںتاحیات نااہل ہوئے تو  فورا ہی پی ایم ایل این نے شاہد خاقان عباسی کو قائد ایوان منتخب کرلیا یوں جمہوری عمل میں کسی قسم کا رخنہ پیدا نہ ہوا۔ اس ضمن میںدوسری نمایاں مثال سید یوسف رضا 
گیلانی کی ہے جو  پی پی کے وزیر اعظم کی حثیثت سے اپنے منصب سے محروم ہوئے تو  پاکستان پیپلزپارٹی کے ہی راجہ پرویز اشرف وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہوگے ،  سوال یہ ہے کہ عمران خان  جس طرح سے  قومی اداروں کی شفافیت پر سوالات اٹھا رہے ، سوشل میڈیا پر ان کے حامی ملکی سرحدوں کے محافظوں بارے جو زبان استمعال کررہے ہیں ، آخر اس کا فائدہ کس کو ہوگا، اپنے اور صرف اپنے مفاد کو اولیت دیتے ہوئے ہم ناجانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ  اقتدار میں آنے جانے سے کہیں بہتر ہے قوم کے دلوں میں زندہ  رہنا ہوا کرتا ہے  ،  مثال کے طور پر 70سال گزرنے کے باوجود  قائدا عظم  اور دیگر تحریک پاکستان کے رہنماوں کی عزت واحترام  پاکستانیوں کے دلوں میں اسی بنا پر  ہے کہ ان کی ترجیحات میں ذاتی اور گروہی مفاد نہ تھا، بدقسمتی کساتھ   آج قومی افق پر ایسے سیاست دانوں  کی کمی شدت سے محسوس ہورہی  جو  عملا بانیاں پاکستان کے جذبے سے سرشار ہوں ۔  عمران خان پر یہ اعتراض کسی طور پر بلاجواز نہیں کہ وہ پہلے سے مسائل کے شکار ملک کو مذید بحرانوں کی جانب  دھکیل رہے ہیں،  پی ٹی آئی کے سنجیدہ حلقے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ کم  وبیش ساڈھے تین سالہ دور اقتدار میں وہ قابل زکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کیا جاسکا  ، صورت حال کی سنگینی کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ  سابق وزیر اعظم کی معاونت کرنے والے ادارے بھی ان کے مخصوص طرزعمل سے نالاں ہوگے ، پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ سیاست میں  پاپولرازم کے نام پر  ہمارے ہاں جو کچھ بھی ہو اس کی کسی صورت حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی ، سیاسی مقاصد کے لیے  سماجی روایات یا پھر مذہب کا استمعال تاریخ میں پہلے بھی ہوتا رہا  مگر سنجیدہ حلقوں نے کبھی اس کی پذائری نہیں کی ، اہل پاکستان کے لیے یہ امر باعث اطمنیان ہونا چاہے کہ ہمارے ہاں اب  یک طرف نقطہ نظر پیش کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوچکا  ، حقیقت یہ ہے کہ سیاسی افق پر عمران خان ایک طرف ہیں جبکہ دیگر تمام سیاسی قوتیں الگ موقف رکھتی ہیں، اہل سیاست میں  میں پایا جانے والا  یہی تناو دراصل عوام کے سیاسی شعور کو بہتر بنانے میںاپنا کردار ادا کررہا ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری لفظوں کی جنگ ہو یا پھر  ایک دوسرے کو بدعنوان یا کرپٹ کہنا بھی  جہاں  عوام میں سیاسی تقسیم کا باعث بن رہے وہی یہی  متضاد دعوے عوام کی سیاسی سمجھ بوجھ میں اضافے کا بھی باعث بن رہے ، اس میں دوآراء نہیں کہ  جمہوری نطام میں سیاسی پختگی کا عمل اچانک پایہ تکیمل کو نہیں پہنچا کرتا ، یہ سفر  مشکلات سے پر ہونے کساتھ کساتھ  اکثر وبیشتر یہ اپنے مسافرکے صبر کا امتحان بھی لیا کرتا ہے ، اس پس منظر میں  پاکستانی سیاست میں پیدا ہونے والا ارتعاش نہ تو پہلی بار ہے ا اور نہ آخری مرتبہ  اس کا مشاہدہ کیا جارہا ہے ،اقبال کیا خوب کہہ گے 
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا 
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا 

مزیدخبریں