ذاتِ باری تعالیٰ نے رمضان کریم کو رحمتوں‘ برکتوں‘ فضیلتوں والے مہینے کے طور پر سرفراز کرکے اسے امتِ واحدہ کیلئے دنیا کے تمام بکھیڑوں اور جھمیلوں سے بے نیاز ہو کر روزے کی برکت کے ساتھ اپنی عاقبت سنوارنے اور خلقِ خدا کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کیلئے مختص کردیا ہے۔ عیدالفطر صبرواستقامت کے ساتھ رکھے اور نبھائے گئے ماہِ صیام کے روزوں ہی کا ذات باری تعالیٰ کی طرف سے انعام ہے جس میں اپنی استطاعت کے مطابق اور اڑوس پڑوس کا بھی خیال رکھتے ہوئے اپنی خوشیوں کے اہتمام کی اجازت دی گئی ہے۔ مگر ایسی خوشی کا جو دوسروں کیلئے دل آزاری کا باعث بنے اور ان میں احساس محرومی کو مزید اجاگر کرے‘ رب کی رضا سے کوئی سروکار نہیں ہو سکتا۔
ماہِ رمضان کے آغاز ہی میں اس مملکت خداداد میں حکومت کی تبدیلی رونما ہوئی اور پی ٹی آئی حکومت کے مخالفین کو باہم متحد ہو کر ایک قومی حکومت تشکیل دینے کا موقع ملا جس کی تشکیل کی راہ میں روڑے اٹکانے کیلئے پی ٹی آئی حکومت اور اسکے سربراہ عمران خان نے خود آئین و قانون کے تقاضوں سے ماوراء ایسی حکمت عملی تیار کی جو ’’میں نہیں تو کوئی بھی نہیں‘‘ کے فلسفے کی بنیاد پر استوار کی گئی چنانچہ وزیراعظم کیخلاف آئینی طریق کار کے مطابق قومی اسمبلی میں پیش ہونیوالی تحریک عدم اعتماد پر وہ اودھم مچایا گیا اور وہ گرد اڑائی گئی کہ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا تصور ہی بے معنی ہو کر رہ گیا۔ سات مارچ سے 9 اپریل 2022ء تک پی ٹی آئی حکومت اور سپیکر‘ ڈپٹی سپیکر‘ گورنر پنجاب اور صدر مملکت تک کی جانب سے ایسے ایسے اقدامات اٹھائے گئے کہ ملک کا آئین اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے انکے سامنے شرمندہ ہوتے نظر آتے رہے۔ ایسا تاثر بنایا گیا کہ یہ شخصیات آئین کے تابع نہیں‘ بلکہ آئین انکے تابع ہے۔ اور عبادت گزاری والے مقدس مہینے میں بھی یہ سارا سیاسی گند اچھالا جاتا رہا جس کی ہماری سیاسی تاریخ میں پہلے کوئی مثال موجود نہیں۔ گند سے بھرپور اس ذہنیت کو جمعۃ الوداع اور لیلۃ القدر کی مبارک ساعت کے وقت امتِ واحدہ کے مقدس ترین مقام مدینہ منورہ تک پہنچا دیا گیا اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی سعادت کیلئے موجود قومی سیاسی قیادتوں کیخلاف اپنی ذہنیت کے مطابق اودھم مچا کر پوری دنیا کے سامنے وطن عزیز کا تماشا بنایا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ بدخصلتی کے اس اظہار پر کسی تاسف‘ کسی شرمندگی‘ کسی افسوس‘ کسی عبرت کے تصور کو بھی قریب تک نہ پھٹکنے دیا گیا۔ اس طرح ربِ کائنات کی فضیلتیں‘ برکتیں‘ رحمتیں سمیٹنے اور اپنے اب تک کے گناہوں پر خدا کے حضور معافی کے خواستگار ہونے کے متقاضی اس مقدس مہینے کو بھی غلیظ سیاست کاری کی نذر کردیا گیا۔
پھر اس کا ردعمل کیا ہوا۔ عید کے دن سے کسی نامعلوم ویڈیو کے منظر عام پر آنے کا وہ شوروغوغا بلند ہوا کہ تقدس مآب چہروں کو اس رطب و یابس الزام تراشی سے بچانا مشکل ہو گیا۔ سو عید کی خوشیوں کا رنگ بھی پھیکا پڑ گیا۔ اب اندیشہ ہائے دور دراز والا یہ سلسلہ چل نکلا ہے تو اب دیکھیں‘ کہاں تک پہنچے۔
اسی رطب و یابس ماحول میں ایک طرف سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے عمران خان کی لانگ مارچ اور دھرنے کی کال کی بنیاد پر ملک میں خون خرابہ کا ماحول بنتا دکھا کر براہ راست فوجی قیادتوں کو معاملات ’’سنبھالنے‘‘ کی دعوت دے ڈالی اور نچلّے نہ بیٹھنے والے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے بھی وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب اور حلف کیخلاف براہ راست آرمی چیف کو خط لکھ کر انہیں اس معاملہ میں دخیل ہونے کی دعوت دے دی۔ تو جناب! آئین و قانون اور عدالتی فیصلوں سے سرکشی کی اس سے بڑی مثال بھلا کوئی اور ہو سکتی ہے۔ آپ جن کو محض اپنی اقتدار سے محرومی کا انتقام لینے کیلئے ماضی جیسے کسی ماورائے آئین اقدام کی کھلم کھلا دعوت دے رہے ہیں‘ وہ تو خود اس سسٹم کو آئین و قانون کے مطابق اور آئینی ریاستی اداروں کے احترام کے ساتھ چلائے رکھنے کے عزم کا اظہار ہی نہیں‘ باربار اس کا اعادہ بھی کر چکے ہیں۔ آپ کو اگر آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری سوٹ نہیں کررہی اور آپ اپنی اقتدار سے محرومی کا انتقام آئین سے سرکشی والے اقدامات خود بھی اٹھا کر اور مقتدر حلقوں کوبھی ماورائے آئین اقدامات کی دعوت دیکر لینا چاہتے ہیں تو پھر آئین و قانون کی عملداری آپ پر بھی بہرصورت لاگو ہونی چاہیے۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ عمران خان کے امریکی سازش والے بیانیہ کے غبارے سے خود انکی کچن کابینہ کے ارکان فواد چودھری اور شیخ رشید نے یہ کہہ کر ہوا نکال دی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بگاڑ پیدا ہونے کے باعث ہی ہمیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا ہے۔ پھر آپ اس بیانیہ کو ساتھ لے کر لانگ مارچ اور دھرنے کیلئے نکلیں گے تو یقیناً آپ کو 2014ء جیسے سازگار حالات دستیاب نہیں ہو پائیں گے۔ ملک کے عوام آج اودھم مچانے اور گرد اڑانے والی اس سیاست سے عملاً عاجز آچکے ہیں جو آپ کے چار سالہ عرصۂ اقتدار کے ساتھ موجودہ قومی حکومت کے جمعہ جمعہ آٹھ دن والے اقتدار کا موازنہ کرتے ہوئے آپ کے گھمبیر بنائے گئے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل میں ریلیف ملنے کے راستے ہموار ہوتے دیکھ رہے ہیں تو انہیں اوکھلی میں سر دیکر آپ کے محض اپنی اناکی تسکین والے احتجاجی مظاہروں کا خود کو چارہ بنانے کی کیوں مجبوری لاحق ہوگی۔ آپ کے چاند رات والے ’’شغل میلے‘‘ سے عوام کی لاتعلقی آپ کیلئے سبق ہونی چاہیے۔ اگر آپ آئین و قانون سے اپنی سرکشی پر کوئی سبق سیکھنے کے قائل ہیں تو۔ ورنہ آئین و قانون اور عدالتی فیصلوں نے اپنی عملداری کیلئے بہرصورت کوئی نہ کوئی راستہ نکالنا ہے۔ کسی کی جانب سے مسلسل اودھم مچائے رکھنے کا یہ ملک‘ معاشرہ اور سسٹم ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا۔ سیاسی اختلاف رائے تو بے شک قابل قبول ہوتا ہے مگر ریاست، آئینی ریاستی اداروں اور آئین و قانون کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔ آپ اپنی ادائوں کا جائزہ لے کر خود ہی ان سے رجوع کرلیں تو آپ کیلئے بہتر ہوگا‘ ورنہ ’’میں نہیں تو کوئی بھی نہیں‘‘ والی پالیسی اب نہیں چل سکتی۔ آپ خاطر جمع رکھیئے حضور!