الیکشن میں ایک ڈاکٹر اور حلوائی مدمقابل آگئے،ڈاکٹر نے ووٹرز سے صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے وعدے کیے، مراکز صحت کے قیام ،ادویات کی مفت فراہمی جیسا منشور دیا، دوسری جانب حلوائی جہاں جاتا یہی کہتا ، ڈاکٹر آپ کے بچوں کو تکلیف دیتا ہے، انھیں ٹیکے لگاتا ہے، کڑوی گولیاں دیتا ہے، میں تو آپ کو اور آپ کے بچوں کو خوش کرتا ہوں مٹھائی کھلاتا ہوں، آپ کو شاید یہ بات انتہائی بیوقوفانہ لگی ہوگی لیکن یقین جانئے لوگوں نے اس حلوائی کی بات کو مانا اسے ووٹ دیے۔ دراصل یہاں ووٹرز کو صحت کی سہولیات سے غرض ہی نہیں تھی،انھیں گولی سے زیادہ مٹھائی میں کشش محسوس ہوئی اور حلوائی جیت گیا کیونکہ اس نے ڈاکٹر کے مقابلے میں بیانیے کی جنگ دانشمندی سے لڑی، اور عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا،جیسے لوگ تھے ویسا ہی انھیں لالچ دیا۔
پی ٹی وی کا ایک پرانا ڈرامہ بڑا مقبول ہوا تھا جس میں سندھ کے ایک گاؤں میں انگلینڈ میں کئی برس گزار کر لوٹنے والے شخص کا مقامی لوگ دوسرے گاؤں کے جرمنی سے لوٹے ایک ان پڑھ دیہاتی جانو جرمن سے انگریزی بولی کا ملاکھڑا کرواتے ہیں۔ انگلینڈ پلٹ شخص انگریزی میں وہیں کا ایک واقعہ سناتا ہے جبکہ جانو جرمن بار بار صرف اے بی سی ڈی اور ون ٹو تھریبولتا رہتا ہے، فیصلہ کرنے والے چونکہ انگریزی سے نابلد مقامی دیہاتی ہوتے ہیں اس لیے وہ فیصلہ سناتے ہیں کہ انگلینڈ پلٹ شخص نے اپنی انگریزی میں ایک شخص کا نام، رمضان بولا اور گلاس کا لفظ استعمال کیا جوکہ دراصل اردو زبان کے الفاظ ہیں جبکہ جانو جرمن نے تمام الفاظ انگریزی بولی میں بولے اردو کا کوئی لفظ نہیں بولا، اس لیے صرف اے بی سی اور ون ٹو تھری جاننے والے جانو جرمن کو انگریزی بولی کے ملاکھڑے کا فاتح قرار دے دیا گیا۔
سمجھنے والی بات یہ ہے کہ آپ جو بات کررہے ہیں وہ سننے والے کون ہیں،ان کی ذہنی سطح کیا ہے۔ وہ کس چیز میں دلچسپی رکھتے ہیں اور کس بات کو سمجھ سکتے ہیں۔ اسی سے درست بیانیہ بنتا ہے اور کامیاب سیاستدان بھی یہی سب دیکھ کر بات کرتے ہیں۔ بیانیے کا تعلق تو عوام کی ذات،ضرورت اور ان کے بڑے مسئلے سے ہونا چاہیے لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں،آج کل کسی سے بھی پوچھ لیں اس کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے لیکن یہاں کچھ اور بیانیے بکتے ہیں۔ دین اور ملک سے ہماری جذباتی وابستگی ہے۔ اسی لیے یہاں مذہب اور حب الوطنی دوبڑے بیانیے بنائے جاتے ہیں۔ نواز شریف وزیر اعظم تھے تو ڈان لیکس کے بعد انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کو ’بہترین‘ رکھنے کے لیے پرویز رشید جیسے قریبی ساتھی کی وزارت قربان کردی،جب حکومت گئی تو ووٹ کو عزت دو کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ سامنے لائے۔
مخالفین نے ان کے خلاف غداری اور توہین مذہب جیسے بیانیے استعمال کر ڈالے جس کی وجہ سے ان پر اور ان کے ساتھیوں پر حملے بھی ہوئے۔ جب عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تواس وقت بھی لوگ مہنگائی سے سخت پریشان تھے،عمران خان کی مقبولیت پست ترین سطح پر آچکی تھی۔ خان صاحب نے جونہی امریکا مخالف بیانیہ دیا غلامی نامنظور کہا لوگوں کی حب الوطنی جاگی اور وہ مہنگائی بھول گئے اور عمران عمران کرنے لگے۔ عمران خان کو جلد احساس ہوگیا کہ امریکا مخالف نعرہ مقبولیت تو دے سکتا ہے لیکن امریکا بہادر کی ناراضگی آئندہ اقتدار کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے تو انھوں نے ’مذہبی ٹچ‘ دیتے ہوئے امر بالمعروف کا بیانیہ متعارف کرا دیا اور ایک بار پھر لوگوں میں توجہ حاصل کی، سیاست میں جتنے بھی مقبول بیانیے استعمال جاتے رہے ان کا شاید براہ راست عوام کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
جذباتی بیانیوں کے ذریعے دراصل مخالفین کے خلاف عوام کے جذبات اور وابستگی کا استعمال کیا جاتا رہا اور اپنا سیاسی فائدہ حاصل کیا گیا۔ آج ملک میں مہنگائی گزشتہ نصف صدی کی تاریخی بلند ترین سطح پر ہے،بے روزگاری ریکارڈ حد تک پہنچ چکی ہے۔ معاشی صورتحال وہاں پہنچ چکی ہے جس کا کبھی بتاکر ڈرایا جاتا تھا لیکن اج بھی ملک میں مہنگائی کے خاتمے کا بیانیہ نہ ہی کوئی سیاسی جماعت دیتی ہے نہ ہی عوام کو ایسے بیانیے میں کوئی دلچسپی۔ شاید اس لیے کہ مہنگائی سے عوام کی جسمانی تو ہوسکتی ہے جذباتی وابستگی کوئی نہیں اوراسی لیے مہنگائی مخالف نعرہ لگا کر سیاسی جماعتوں کے پاس تو ان کے جذبات سے کھیلنے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں، صرف بیانات اور مخالفین کو ڈِچ کرنے کی حد تک ہی مہنگائی پر بات کردی جاتی ہے۔ دنیا میں سیاسی جماعتیں ترقی،روزگار،صحت اور تعلیم سے متعلق نعرے اور بیانیے سامنے لاتی ہیں لیکن ہمارے یہاں ایسا کوئی بیانیہ بکتا ہی نہیں تو پھر سیاسی جماعتوں کو کیا غرض، جب لوگوں کوہی نہیں، تو یہ عوام پرہے کہ وہ سیاستدانوں کو اپنی مرضی اور ضرورت کے بیانیے پر لائیں یا ان کے بیانیوں پر یقین کرکے ان کی سیاسی مخالفت کا ایندھن بنیں اورایسے ہی ڈاکٹر کی جان بچانے والی گولیوں کو کڑوا سمجھ کر حلوائی کی میٹھی گولیاں لیتے رہیں۔
بیانیے کی میٹھی گولیاں
May 06, 2023