حضرت علیؓ کے اقوال میں تمام نفسیاتی مسائل کا حل موجود ہے، جن کو انگریزی میںHealing Quotes بھی کہا جاتا ہے۔حضرت علیؓ فرماتے ہیں، ’پریشانی خاموش رہنے سے کم، صبر کرنے سے ختم اور شکر کرنے سے خوشی میں بدل جاتی ہے‘۔ ’جو تمھیں خوشی کے موقع پر یاد آئے، سمجھ لو کہ تم اس سے محبت کرتے ہو اور جو تمھیں غم کی شدت میں یاد آئے تو سمجھ لو کہ وہ تم سے محبت کرتا ہے‘۔ ’کبھی کسی کے سامنے اپنی صفائی پیش نہ کرو کیوں کہ جسے تم پر یقین ہے، اسے ضرورت نہیں اور جسے تم پر یقین نہیں وہ مانے گا نہیں‘۔ ’ہمیشہ سچ بولو کہ تمھیں قسم کھانے کی ضرورت نہ پڑے‘۔ ’انسانوں کے دل وحشی ہیں جو انھیں موہ لے، اسی پر جھک جاتے ہیں‘۔ ’جب عقل پختہ ہو جاتی ہے، باتیں کم ہو جاتی ہیں‘۔ ’انسان زبان کے پردے میں چھپا ہے‘۔ ’جو بات کوئی کہے تو اس کے لیے برا خیال اس وقت تک نہ کرو جب تک اس کا کوئی اچھا مطلب نکل سکے‘۔ ’دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے کہ چھونے میں نرم اور پیٹ میں خطرناک زہر‘۔ ’کسی کے خلوص اور پیار کو اس کی بے وقوفی مت سمجھو ورنہ کسی دن تم خلوص اور پیار تلاش کرو گے اور لوگ تمھیں بے وقوف سمجھیں گے‘۔’جو بھی برسر اقتدار آتا ہے، وہ اپنے آپ کو دوسروں پر ترجیح دیتا ہے‘۔ ’بھوکے شریف اور پیٹ بھرے کمینے سے بچو‘۔ ’لوگوں کو دعا کے لیے کہنے سے زیادہ بہتر ہے ایسے عمل کرو کہ لوگوں کے دل سے آپ کے لیے دعا نکلے‘۔ ’مومن کا سب سے اچھا عمل یہ ہے کہ وہ دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کر دے‘۔ ’سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ تم کسی پر وہ عیب لگاؤ جو تم میں خود ہے‘۔ ’جو ذرا سی بات پر دوست نہ رہے۔ وہ دوست تھا ہی نہیں‘۔ ’جس کو ایسے دوست کی تلاش ہو جس میں کوئی خامی نہ ہو، اسے کبھی بھی دوست نہیں ملتا‘۔ ’انصاف یہ نہیں کہ بدگمانی پر فیصلہ کر دیا جائے‘۔ ’حکمت مومن کی کھوئی ہوئی چیز ہے، حکمت خواہ منافق سے ملے لے لو‘۔ ’کسی کی مدد کرتے وقت اس کے چہرے کی جانب مت دیکھو، ہو سکتا ہے اس کی شرمندہ آنکھیں تمہارے دل میں غرور کا بیج بو دیں۔‘
ایک شخص نے علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا کہ جب ہماری قسمت پہلے سے لکھی ہوئی ہے تو ہمیں دعا مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟ حضرت علی ؓ نے فرمایا، ’ہو سکتا ہے کہ آپ کی قسمت میں یہی لکھا ہو کہ جب آپ مانگے کہ تبھی آپ کو ملے گا‘۔ ’صبر کی توفیق مصیبت کے برابر ملتی ہے اور جس نے اپنی مصیبت کے وقت ران پر ہاتھ مارا، اس کا کیا دھرا اکارت گیا‘۔ ’موت کو ہمیشہ یاد رکھو مگر موت کی آرزو کبھی نہ کرو‘۔ ’قناعت وہ دولت ہے جو ختم نہیں ہو سکتی۔‘
حضرت علی مرتضیٰؓ کے ارشادات، اقوال، نصیحت، وعظ، عمل، کمالات، علم، معرفت، ایمان، تقویٰ، توکل، قناعت، صبر، شکر، بندگی، اطاعت، سخاوت، عبادت، عجز و انکساری، حکمت، دانائی، ایثار، قربانی، ایک عام انسان کی سوچ سے بالا ہے۔ جس بے نصیب کو آپؓ کی معرفت نصیب نہیں وہ شخص لاعلاج ہے کیوں کہ نبی کریمؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ ’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے، لہٰذا جوکوئی علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اس دروازے سے آئے۔‘ غزوہ خیبر کے موقع پر نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ کل میں ایسے شخص کو جھنڈا عطا کروں گا جس کے ہاتھ پر خیبر فتح ہو گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والا ہو گا اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرے گا۔ صحابہ کرامؓ انتظار میں تھے کہ سعادت ہم میں سے کس کو ملے گی۔ حضور اقدسؐ نے حضرت علیؓ کو یاد فرمایا، اس وقت آپ کو آشوبِِ چشم لاحق تھا۔ حضور پاکؐ نے آپ کی چشمانِ مبارک میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور پرچمِ اسلام عطا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ سے خیبر فتح کر دیا۔ نبی کریمؐ نے حضرت علیؓ کو مخاطب کرکے فرمایا، ’تم میرے نزدیک وہی مقام رکھتے ہو جو مقام موسیٰ کے نزدیک ہارون کا تھا البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔‘ حضورؐ نے فرمایا، ’اے علی! تم سے محبت کرنے والا، مجھ سے محبت کرنے والا ہے اور تم سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے۔‘
علی مرتضیٰؓ کے ساتھ آقاؐ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ علیؓکی زبان مبارک سے نکلا ہر جملہ شفا بن جاتا ہے۔ اور علی مرتضیٰؓ کی انکساری کا یہ مقام تھا کہ خود فرماتے ہیں، ’اے اللہ! میری عزت کے لیے یہی کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوںاور میرے فخر کے لیے یہی کافی ہے کہ تو میرا پروردگار ہے، تو ویسا ہے جیسا میں چاہتا ہوں، بس تو مجھے ویسا بنا لے جیسا تو چاہتا ہے۔‘ یااللہ! تو مجھے اتنا جانتا ہے جتنا میں خود نہیں جانتا اور جتنا میں اپنے آپ کو جانتا ہوں، اتنا لوگ نہیں جانتے۔ یا پروردگار! میرے بارے میں لوگوں کا جو گمان ہے، ہمیں اس سے بہتر مقام عطا کر اور ہماری جن باتوں کا ان کو علم نہیں، ان کا پردہ رکھ لے۔‘ اور جو ہم اہل بیعت سے محبت کرے، اسے فقر کی چادر اوڑھنے کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ نفس خوشامد اور تعریف پسند کرتا ہے۔‘ جس نے اپنے اور اللہ کے مابین معاملات کو درست رکھا، اللہ اس کے اور دوسرے لوگوں کے درمیان کے معاملات درست کر دے گا۔