میاں شہباز شریف نے قوم کو خبردار کیا ہے۔ ’’قرضے کا جال موت کا پھندا بن چکا ہے‘‘۔ اس خبر کے ساتھ جڑا سوال یہ بھی ہے کہ پچھلے چالیس برس سے اس ملک میں حکمران کون رہاہے؟انور مقصود کی سنجیدہ شاعری ان کی مزاحیہ شاعری تلے دب کر رہ گئی ہے۔ انہوں نے ایک ہی شعر میں پوری ن لیگی حکومتی کارگزاری بیان کر دی ہے:
اللے تللے ادھارے ترے
بھلا کون قرضے اتارے ترے
یہ موٹر وے، اوور ہیڈ برجز اور انڈر پاسز سب قرض کی دین ہیں۔ اب غالباً قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں انہیں رہن بھی رکھ دیا گیا ہے۔ ایوان وزیر اعظم میں اس مرتبہ عید سعید کے مبارک موقعہ پر ایک ماہ کی کارکردگی پر چار چار تنخواہیں بخش دی گئیں۔ یقینا یہ تنخواہیں قرضہ لے کر ہی دی گئی ہونگی؟ لیکن کتنا گندا معاشرہ ہے کہ عام آدمی تو دور کی بات دانشور بھی حقائق، تحقیق اور سچائی کی بجائے عقیدے، ذات برادری، فرقے، دھڑے اور اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کو اہمیت اور ساتھ دیتے ہیں۔ اسی لئے ن لیگ سے اس پر کوئی احتجاجی آوازنہیں آئی۔
قوموں کی زندگی میں کفایت شعاری، صبر، قناعت بہت اہم ہیں۔ انفرادی سطح پر بھی، قومی سطح پر بھی یکساں طور پر۔ فیض احمد فیض نے عبداللہ ہارون میموریل ٹرسٹ کالج کراچی کا پرنسپل بننا قبول کرلیا۔ ایک دن ٹرسٹ کی کار مختار لیڈی ہارون پریشانی کے عالم میں فیض سے ملنے آئیں اور کہا:ٹرسٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس وقت ہم آپ کو صرف 3000ماہانہ ہی دے سکتے ہیں۔ جیسے ہی حالات بہتر ہونگے ہم اس رقم میں اضافہ کر دیں گے۔ حسب سابق اور حسب توقع فیض نے فوراً اعلان کر دیا کہ وہ اتنی بڑی تنخواہ قبول نہیں کر سکتے اور ان کے لئے 1200روپے ماہانہ کی تنخواہ ہی کافی ہوگی۔ بعد میں انہیں سمجھایا گیا کہ پرنسپل کی تنخواہ 1800روپے سے یوں کم نہیں ہو سکتی کیونکہ بہت سے اساتذہ کو اتنی یا زیادہ تنخواہ مل رہی ہے اسلئے پرنسپل کی تنخواہ اس سے کم ناممکن ہے۔ یہ مجبوری تھی سو فیض صاحب لاجواب ہو گئے۔
لو اک خوشبو کا اورجھونکا۔۔۔
حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے ناظم اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔اختلافی مسائل سے ان کے گریز کا یہ عالم کہ ایک صاحب ان سے پوچھنے لگے:’’کیا ننگے سر نماز ہو جاتی ہے‘‘؟ اہلحدیث حضرات بڑے اہتمام سے اپناصافہ مصلے پرسامنے رکھ کر ننگے سر نماز پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن مولانا ہنس کر کہنے لگے: ’’جب کبھی مجھے ننگے سر نماز پڑھتے دیکھو گے تب پوچھ لینا‘‘۔ پھر ایک مرتبہ یوں ہوا کہ مسجد کی انتظامیہ نے ان کی تنخواہ بڑھا دی۔ یہ 70ء سے پہلے کا زمانہ تھا۔ دو تین سو روپے بڑھائی ہوگی۔ کہنے لگے۔’’کوئی ضرورت نہیں میری تنخواہ بڑھانے کی۔ اول تو میں نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ دوم اب تو میرا چھوٹا بیٹا بھی باٹا کمپنی میں ملازم ہو گیا ہے اور ہر ماہ تنخواہ گھر لاتا ہے‘‘۔ اسی شہر گوجرانوالہ نے حضرت مولانا حاجی صادق اور مفتی جعفر حسین کا فقر و استغناء بھی دیکھا ہے۔
دولت کی لالچ جب انسانی خون پینے پر اتر آتی ہے تو پھر یوں ہوتا ہے۔ ہمارے گوداموں میں 31لاکھ ٹن گندم موجود تھی۔ یہ ہماری ضروریات کیلئے وافر تھی۔ آنے والی فصل کی اچھی خبریں بھی تھیں۔ لیکن نگران دور میں ایک روسی ملک سے 3100 روپے من کے حساب سے 31لاکھ ٹن گندم خرید کر سرکار کو 4500روپے فی من کے حساب سے بیچ کر 85ارب روپے منافع کمالیا گیا۔یہ منافع کمانے والے کون تھے؟ قوم کو قرضہ کے جال میں موت کے پھندے کی اطلاع دینے والے ہمارے ’’با خبر‘‘ وزیر اعظم ایک ریٹائرڈ جسٹس کی ڈیوٹی لگا کر امن چین سے ہیں کہ وہ ان ’’مہربانوں‘‘ کو خود ہی ڈھونڈ نکالیں گے۔ اللہ اللہ خیر صلیٰ۔
منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے ایک مزیدار واقعہ پڑھیے۔ شکیل درانی ریلوے اور واپڈا کے چیئرمین رہے ہیں۔ وہی اس واقعہ کے راوی ہیں۔ قومی اسمبلی کی ریلوے کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس تھا۔ ایک حساس موضوع زیر بحث تھا۔ لاکھوں ڈالر کے قرضے سے جنرل مشرف کے ابتدائی دو سالوں میں چین سے ناقص ریلوے انجن اور بوگیاں منگوائی گئیں۔ اس اجلاس میں چیئرمین قائمہ کمیٹی اور ممبران اسمببلی بڑی دیر سے شکیل درانی پر چڑھائی کئے ہوئے تھے کہ وہ اس سانحہ کے ذمہ دار افسران کے نام بتائے۔ شکیل درانی آفیشل انداز میں آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے بات سمجھانے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن ادھر سے اصرار تھا کہ پوری وضاحت سے پس منظر بتائیں۔ لیکن وہ افسرانہ طریقے سلیقے اور ہنر مندی سے جواب دیتے رہے۔ لیکن جب ممبران کا اصرار بڑھا تو وہ بول اٹھے۔’’بس ٹھیک ہے، میں نام بتائے دیتا ہوں، آپ پھر کاروائی کرلیں‘‘۔ممبران بولے: ’’جی بتائیں۔ آپ پھر دیکھیں گے کہ ہم کیا کرتے ہیں‘‘۔شکیل درانی نے انہیں تین سابق ٹاپ فوجی افسروں کے نام بتائے جو جنرل مشرف کے نہایت قریبی تھے۔ انہوں نے ہی ان ناقص انجنوں اور بوگیوں کو منگوایا تھاجس میں لاکھوں ڈالر ضائع ہوئے۔ ان دنوں وہی تینوں ریلوے کو چلا رہے تھے۔ وہ تین نام سنتے ہی کمیٹی ممبران کو جیسے سانپ سونگھ گیا اور وہ سب خاموش ہو گئے۔ ایسے لوگ حکومت سے باہر ہوں تو حکومت کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔ حکومت میں ہوں تو آئین قانون کی بندش سے باہر۔
دانہ گندم آدمؑ کے جنت سے نکلنے کا سبب بنا۔اب یوکرائن سے خریدی گئی یہ گندم ضرور اک قیامت بپا کریگی۔ ملک بھر سے چھوٹے بڑے سبھی کاشتکار، زمیندار مظلومیت کی ایک ہی صف میں کھڑے کر دیئے گئے ہیں۔ اب ان کا چپ رہنا ناممکن ہے۔ اْدھر جج، جرنیل، تاجر، سیاستدان سبھی حیران پریشان ہیں کہ کیا ہوگا؟ تبدیلی انقلاب یا بہتری کی کوئی اور صورت، کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔ پاک و ہند کے بہت بڑے علمی، مذہبی گھرانے کی آخری روشنی جناب حماد غزنوی اس تشویشناک صورتحال کی اپنے تازہ شعر میں یوں تصویر کھینچ رہے ہیں:
آیا ہے ایسا موڑ کہانی میں ایک دم
اک دوسرے کو تکتے ہیں کردار دم بخود
٭…٭…٭