ارشاد باری تعالیٰ ہے :بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہو ں نے نیک کام کیے تو اللہ (لوگوں کے دلوں میں ) ان کے لیے محبت پیدا کر دے گا ۔ ( سورۃ مریم)
یہ دنیا عالم شہادت ہے یہاں اللہ تعالیٰ کبھی بھی انسان کے سامنے آکر نہیں کرتا بلکہ یہاں ہر چیز کسی سبب کے پردہ میں ظاہر ہو گی ۔ اور اللہ تعالی کی ہر قدرت پر ایک اشتباہ کا پردہ ڈال دیا جائے گا ۔ کسی شخص کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنی مرضی کا اظہار بھی بندوں کی وساطت سے ہی کرے گا ۔ یہاں خدا کی آواز مخلوق کی آواز کے روپ میں ہی بلند ہو گی ۔ عند اللہ کسی کے مقام و مرتبہ کا اظہار سدائے خلق کی صورت میں ہی ہو گا اور لوگ ہی پردہ غیب میں چھپی حقیقتوں کا مظہر ہوں گے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا تا کہ تم لوگوں پر گواہ بن جائو۔ ( سورۃ البقرۃ)
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا ۔ آپؐ نے فرمایا اس میت کے بارے میں کیا خیال ہے تو لوگوں نے کہا یہاں تک ہم جانتے ہیں یہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرنے والا تھا اور لوگوں نے اس کی تعریف کی ۔ تو آپؐ نے فرمایا واجب ہو گئی ۔ پھر ایک اور جنازہ گزرا تو آپؐ نے اس کے متعلق پوچھا تو لوگوں نے کہا اللہ کے دین میں بہت برا آدمی تھا ۔ تو آپؐ نے فرمایا واجب ہو گئی تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو ۔ (السنن الکبری)
ایک روایت میں ہے کہ جب حضورؐ نے دونوں مرتبہ ’واجب ہو گئی‘ فرمایا تو حضرت عمر فاروقؓ نے عرض کی یا رسو ل اللہ ﷺ، میرے ماں باپ آپؐ پر قربان جب وہ جنازہ گزرا جس کی لوگوں نے تعریف کی تو آپؐ نے فرمایا واجب ہو گئی اور جب وہ گزرا جس کی لوگوں نے برائی کی تو پھر بھی آپؐ نے فرمایا واجب ہو گئی تو آپؐ نے ارشاد فرمایا : جس کی تم نے تعریف کی اس پر جنت واجب ہو گئی اور جس کی تم نے مذمت کی اس پر دوزخ واجب ہو گئی کیونکہ تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو ۔ (سنن نسائی )
غرض کی محبت ، محبت نہیں بلکہ ہوس ہے اور ڈر کی عقیدت ، عقیدت نہیں بزدلی ہے ۔ اپنے مفادات سے اتھ کر اگر مخلوق کسی سے محبت کرتی ہے تو حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا ہی اظہار ہے اور اگر مخلوق کسی شخص کو برا جانتی ہے تو یہ اللہ کے نزدیک اس کے برا ہونے کی علامت ہے ۔