وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ٹیکس وصولی میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے افسران کے کام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اچھے افسران کو انعام دیں گے لیکن کرپٹ عناصر اور کرپشن نہ روکنے والے افسروں کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ کام کریں یا گھر جائیں، واجبات وصولیوں کا ہدف کم ہے، ہم قرض لینے پر مجبور ہیں خراب کارکردگی والے افسروں کو عہدوں پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔ ایف بی آرکے افسران کے اعزاز میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے ان افسران نے انتہائی ایمان داری، بلاخوف اور دیانت داری سے اپنے فرض کی ادائیگی کی، جس پر پوری قوم کو ان پر فخر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کے چیلنجز میں سے ایک سرمایے کی وصولی ہے، جو ایک بہت بڑا چیلنج ہے، پاکستان کا واجب الادا حجم بہت زیادہ ہے، اسی طرح سالانہ واجبات کی وصولویوں کا ہدف کم، ایک اندازے کے مطابق 3 یا 4 گنا زیادہ جو خزانے میں آنا چاہیے تھیں وہ کرپشن، فراڈ، لالچ اور حرص کے نذر ہو رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم قرضے لینے، آئی ایم ایف کے پروگرام کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ اچھی بات ہے کہ وزیراعظم نے ایک اہم ادارے کے افسران کے اچھے کام کو سراہنے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا اور ان دوران بہتر کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی اور جو کام نہیں کرنا چاہتے یا رشوت اور بدعنوانی کے ذریعے معاملات بگاڑ رہے ہیں انھیں واضح پیغام دیا کہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی لیکن یہ ایک حقیقت ہے، جس کا اعتراف ایف بی آر ہی کے سابق سربراہ شبر زیدی ایک انٹرویو میں کرچکے ہیں، کہ اس ادارے میں غالب اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو بدعنوانی کی طرف مائل ہیں اور انھی کی وجہ سے محصولات کی وصولی کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ وزیراعظم اگر واقعی بدعنوانی کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں تو پھر انھیں کچھ مثالیں ضرور سامنے لانی چاہئیں تاکہ سب کو اچھی طرح اندازہ ہو جائے گا کہ جو شخص رشوت اور بدعنوانی سے باز نہیں آئے گا اس کے ساتھ کیا ہوگا۔
ویسے رشوت اور بدعنوانی صرف ایف بی آر ہی کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ وبا پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے اور سرکاری محکموں اور اداروں میں اس کا اثر زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ تمام ادارے جن کے اہلکاران و افسران کا عوام سے رابطہ ہوتا ہے یا عوام سے اپنے مسائل کے حل کے لیے ان سے رابطہ کرنا ہوتا ہے ان اداروں میں کرپشن زیادہ ہے اور نہایت گھناؤنی شکلوں میں موجود ہے۔ عوام کے پاس کوئی ایسا پلیٹ فارم بھی موجود نہیں ہے جہاں وہ ان اداروں کے اہلکاران و افسران کے خلاف اپنی فریاد پیش کرسکیں۔ محتسب کا ادارہ موجود تو ہے اور وہاں ہر سال لاکھوں لوگ درخواستیں دے کر اپنے مسائل بھی حل کراتے ہیں لیکن مسائل جتنے زیادہ ہیں ان کے مقابلے میں محتسب کا ادارہ چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جو احسن اقدامات کیے تھے ان میں ایک سٹیزن پورٹل کا قیام تھا جسے اس حکومت کے ختم ہوتے ہی غیر فعال کردیا گیا۔ عوامی فلاح کے ایسے منصوبوں کو سیاسی نظر سے دیکھنے کی بجائے عوام کی بہتری کے زاویے سے دیکھا جانا چاہیے اور انھیں قومی اثاثہ سمجھ کر قبول کیا جانا چاہیے۔
شہباز شریف نے مذکورہ تقریب میں یہ بالکل درست کہا کہ جزا اور سزا کے عمل سے عظیم قومیں بنتی ہیں۔ آج فیصلہ کن گھڑی آچکی ہے اور ہم سب نے مل کر فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کو اس کا کھویا ہوا مقام دلائیں گے۔ ان کا کہنا تھا، مجھے بتایا گیا کہ 2700 ارب روپے کے ٹیکس کا معاملہ پہلے ہی لٹکا ہوا ہے، تین سال کے سیلز ٹیکس سے ساڑھے سات سو ارب روپے غائب ہیں جو کرپشن، فراڈ، لالچ اور جعلسازی سے ہڑپ ہو گئے اور صرف 1 ارب 60 کروڑ وصول ہوئے۔ اسی لیے قوم اور لاکھوں کروڑوں بچے اور نوجوان بجا طور پر پوچھتے ہیں کہ اس ترقی کے دور میں ہم کیوں پیچھے رہ گئے ہیں؟ وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہم آج فیصلہ کریں اور تہیہ کریں کہ پاکستان کی تقدیر بدلنے ہے تو طویل عرصے نہیں بلکہ دن رات محنت سے چند برسوں میں ملک کا کھویا ہوا مقام حاصل کرلیں گے۔ محنت کریں تو بھارت کے باپ کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے۔
وزیراعظم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سن کر بہت اچھا لگ رہا ہے لیکن اس معاملے کو عملی اقدامات کے ذریعے اگر آگے نہیں بڑھانا تو پھر انھیں چاہیے کہ بڑے بڑے دعوے بھی نہ کریں۔ پاکستان میں سیاست اور جمہوریت کے بدنام ہونے کی سب سے بڑی وجہ سیاستدانوں کے وہ بیانات ہیں جن پر عمل درآمد کبھی نہیں ہوتا، اسی لیے عوام جمہوریت کے ساتھ ساتھ ریاست سے بھی بیزار دکھائی دیتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ اب نعرے بازی کی بجائے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات پر توجہ دیتے ہوئے بدعنوانی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ ملک کو مزید مسائل کا شکار ہونے سے بچایا جاسکے۔