فریب سود و زیاں …حیدر عباس کلیال
haiderabbasraja556@gmail.com
گندم دنیا کے اکثر ممالک کی طرح پاکستان کی اہم ترین فصل ہے جو ملکی غذائی ضروریات کا بیشتر حصہ پورا کرتی ہے۔ گزشتہ سال اچھے ریٹ ملنے کی وجہ سے اس سال گندم کی کاشت کے رقبہ میں بیانتہا اضافہ ہوا سرکاری تخمینے کے مطابق رواں سال ریکارڈ دو کروڑ اڑتیس لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پہ گندم کی کاشت ہوئی نتیجتاً اس سال گندم کی بمپر پیداوار ہوئی۔ لیکن ناقص حکومتی پالیسیوں، اداروں کے باہمی روابط و مشاورت کے کمزور نظام اور موقع پرست منافع خور مافیہ کی ملی بھگت سے بیوقت گندم کی درآمد نے کسان کی ساری امیدوں پہ پانی پھیر دیا۔ بین الاقوامی منڈی میں گندم کی قیمت کافی کم تھی لاکھوں ٹن خرید کر مقامی مارکیٹ میں مہیا کر دی گئی لیکن آٹا مقامی گندم کے ریٹ کے مطابق یعنی 4700 روپیہ من فروخت ہوتا رہا جس سے عوام کو تو کچھ فائدہ نہ ہوا کسان کا مستقبل بھی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے البتہ کرپٹ اشرافیہ کی جیبوں میں اربوں روپیہ پہنچ گیا۔ المیہ یہ ہے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے زرعی سکینڈل اور بیضابطگی کی آج تک کوئی تفتیش تحقیق ہوئی نہ کوئی اعلی اختیاراتی کمیشن بن سکا۔ ابھی تک دوسرے اہم مسئلے کی طرف بھی توجہ مبذول نہیں ہوسکی کہ گندم کی کاشت کے رقبے میں ایک ملین ایکڑ کے اضافے کے باعث دیگر فصلوں مثلاً مسور چنا تارا میرا اور کنولا جیسی اہم فصلات کا رقبہ کم ہوا جس کے باعث ان کی طلب و رسد میں فرق کے باعث ریٹ بڑھنا یقینی ہے بلکہ درآمد کی صورت میں قیمتی زرمبادلہ کا زیاں کا امکان نوشتہ دیوار ہے۔ یہ تو اس سارے بحران کے چند ظاہری اسباب ہیں۔لیکن قابل غور بات یہ کہ بحران اچانک ہی پیدا ہوگیا یا اس کے ظاہری اسباب کے پس پردہ کوئی بہت بڑی سازش بھی پنہاں ہے۔ میری دانست میں اس کے پیچھے جو سازش پنہا ہے وہ کارپوریٹ سیکٹر ہے جو ہر شعبہ ہائے زندگی پہ بتدریج پنجے جما رہا ہے۔ صرف زراعت کے حوالے سے ہی دیکھا جائے اس سے قبل کارپوریٹ سیکٹر پولٹری فارمنگ کو مکمل طور پر نگل چکا ہے۔ پھر ڈیری سیکٹر پہ بڑی مناپلی قائم کر چکا ہے اور اب زراعت کی باری ہے۔ زراعت پہ کارپوریٹ سیکٹر کی اجارہ داری کی کوششیں مشرف دور سے جاری ہیں۔ تین یا چار خوراک بنانے والی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ایک بڑی ملکی کمپنی اس اجارہ کی دوڑ میں شامل ہیں۔ ان کی کامیابی کا تمام تر دارومدار چھوٹے کسان کو فیلڈ سے نکال باہر کرنے (kick out)پہ ہے۔ کسان کو کک آوٹ کرنے کا وہی آزمودہ حربہ اختیار کیا جا رہا ہے جو پولٹری اور ڈیری سے چھوٹے سٹیک ہولڈرز کو نکالنے کیلئے اختیار کیا گیا تھا یعنی پہلے مقامی مارکیٹ میں مصنوعی مہنگائی کر کے جانوروں اور پرندوں کی خوراک مہنگی کی جائے جس سے ان کو پالنے کی قیمت cost بڑھ جائے پھر اچانک تیار جانور / مرغی کا ریٹ انتہائی کم کر دیا جائے جس سے چھوٹے سٹیک ہولڈرز کی بقا (survival) ممکن نہ رہے ۔یاد رہے یہ مارکیٹ کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کیلئے غیر ضروری درآمدات کا موثر ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ بالآخر کارپوریٹ سیکٹر کی اجارہ کی یہ جنگ جیتنے کے بعد خریدار صارف بن جاتا ہے جو قیمت اور معیار کے حوالے سے مکمل طور پر سیکٹر کے کنٹرول میں رہتا ہے۔ بات ہو رہی تھی کارپوریٹ سیکٹر کی زراعت پہ اجارہ داری قائم کر کے چھوٹے کسانوں کو کک آوٹ کرنے کی تو اس کی مثالیں یورپ اور امریکہ میں عام ملتی ہیں جہاں زرعی خاندان تقریباً ناپید ہو چکے ہیں اور زراعت کا سارا کنٹرول مخصوص کمپنیوں کے ہاتھ میں جا چکا ہے۔ دولت کا ارتکاز کسی بھی معاشرے کی ناہمواری اور معاشی تباہی اور طاقت کے توازن کو بری طرح بگاڑنے والا خون آشام درندہ ہے یہ ارتکاز چاہے افراد کے حق میں یا کمپنی کارپوریشن وغیرہ کے ایک ہی جیسی تباہی کاری کا حامل ہوتا ہے۔ ملکی تاریخ پہ نظر ڈالنے سے یہ بات مشاہدے میں آتی ہے مختلف ادوار میں مختلف شعبوں نے بیپناہ دولت اور وسائل کے بل بوتے پر طاقت کے توازن کر بری طرح متاثر کیا حکومتیں بنانے اور گرانے میں بلواسطہ یا براہِ راست ملوث ریے اور آخر کار خود بھی طاقت کی جنگ کی آگ کا ایندھن بنے اور ساتھ ہی ملک کو بھی کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیا۔ آج پھر ملک عزیز کو ایک نئے پنجے گاڑتے عفریت کا سامنا ہے جو تیزی سے کسان کے وسائل پہ تسلط جما رہا ہے جس کی پیشقدمی میں تمام طاقتور بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں لیکن اس کا انجام بھی بخیر نظر نہیں آتا۔ یہی دیکھ لیں کہ آج سے چند دہائی قبل یہ تصور ہی محال رہا ہوگا کہ دیہات میں رہنے لوگ مرغی، انڈے، دالیں ،گھی ،دودھ سبزیاں وغیرہ قیمتاً خریدا کریں گے لیکن آج یہ ناقابلِ تصور بات حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔ گندم ہی ان آخری فصلوں میں سے ایک رہ گئی تھی جو دیہات میں بسنے والے اکثر لوگ خود اگاتے تھے لیکن اگلے چند سالوں میں دیہاتی لوگ گندم کے بھی صارف بننے جا رہے ہیں۔