پیرس کی ڈائری … محمود بھٹی
فتنہ ، فساد، انتشار، جرم ، برائی سب انتہائی پرکشش اور آسان ہوتے ہیں، دیکھا گیاہے کہ جب کوئی بھی بہت زیادہ عقل مند بنتے ہوئے ان کے قریب رہ کر ان کی توجیہہ پیش کرنیکی کوشش کریگا ان کو حل کرنے کی تجویز لائیگا،اس پرغور و فکر کرکے اسے قابل فہم بنانیکا فارمولہ پیش کریگا ،ان کو معقول بنانے کیلئے سمجھنے پر ابھارے گا یا انھیں سمجھنے اورسمجھانے پر زور دیگا وہ غیر محسوس طریقے سے اس گہری دلدل میں دھنستا چلا جائے گا جہاں سے بچ نکلنے کا امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے کوئی سگریٹ نوشی تو نہیں کرتا لیکن ان کا نشہ کرنیوالوں کی صحبت میں مسلسل بیٹھتا رہتاہے تو ایک دن ایسا ضرور آتا ہے کہ وہ اس علت میں پھنستا جاتا ہے اور آخر کار پھیپڑوں کے کینسر میں مبتلا ہوکر مر جاتا ہے ،دین اور ماہرین طب کا یہی کہنا ہے کہ کامیاب صرف وہی رہے گا جو فتنہ ،فساد، انتشار، جرم ، برائی سے دور بھاگے گا، جب اللہ نے فرمایا کہ یہ سب علتیں حرام ہیں ان سے اجتناب کرو تو کوئی انسان کیسے انھیں حلال کہہ کرانھیں اپنا سکتا ہے؟ وہ کیسے اور اسکی حمایت کرسکتا ہے؟
گذشتہ کئی سالوں میں دیکھا گیا ہے کہ دوسروں کو تخت سے گرانے اور خود کو ابھارنے کیلئے جو اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے اس کی مثال نہیں ملتی ،ایسے ایسیالزام برائے الزام عائد کئے گئے کہ معاشرے میں حقیقی فتنہ پیدا ہوگیا، لوگوں کا گھروں میں سیباہر نکلنا بھی ناممکن ہوگیا،جس نے چاہا جیسے چاہا فون کیمرہ اٹھایا اور مخالف کی ویڈیو بنائی اور من پسند آڈیو اس کے پس منظر میں لگایا اور اسے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیا، ہم خیالوں کو یہ ویڈیو شیئرکرتے ہوئے مزید شیئر کرنے پر ابھارا، جب ویڈیو وائرل ہوگئی تو اس کے بھی مزے لینا شروع کردیئے،حقیقت میں ہم میراثی قوم بن چکے ہیں،کوئی گرے تو ہم ہنستے ہیں، کوئی مرر ہاہو تو ہم ویڈیو بنانا شروع کردیتے ہیں،کسی کی شکل ، کسی کے جسم ، کسی کی عادات، کسی کی بول چال، کسی کے لباس پر جگت لگا کر، مذاق اڑا کر، ٹھٹھہ بنا کرنہ صرف خوش ہوتے ہیں بلکہ اس کو کسی بھی ایسی چیز یا نام سے منسوب کردیتے ہیں جو عملی طور پر مزاح کم اور تضحیک زیادہ ہوتی ہے،
سوشل میڈیا پر ایک بات جو آج سچ لگنے پر دھڑا دھڑ شیئر کی جاتی ہے بعد ازاں جھوٹ ثابت ہونے پر اسی جھوٹی بات پر معافیاں مانگی جاتی ہیں،
فتنے پھیلانے کی کوششیں فساد اورپیچیدہ ترین انتشارمیں بدل رہے ہیں،سیاست میں تنقید برائے اصلاح کی بجائے تفریق اور تقسیم کی خلیج بڑھتی جارہی ہے،رشتے داراور دوستوں میں ناچاقیاں اور اظہار ناراضگی اس قدر بڑھ رہا ہے کہ انکے مابین غم و غصے کی فضا بڑھ رہی ہے،
بہت سیچاہنے والیایک دوسرے کو انفرینڈ کررہے ہیں، ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جو مخالفین کو سوشل میڈیا پربلاک کر رہے ہیں، دِلوں میں نفرتیں پروان چڑھ رہی ہے،
خوشیاں اور محبتیں کم ہوتی جا رہی ہیں،ایسے سیاسی معاملات جن پر لوگوں کا نہ اختیار ہے نہ ہی وہ ان حالات کی پیدائش کے ذمہ دار ہیں، اور جن حالات پر ان کوئی بھی لینا دینا نہیں وہ ان حالات اور ان سیاسی بیانات پر اپنے رشتوں اور تعلقات کو خراب اور منقطع کررہے ہیں،
ہمارے پیارے نبی نے فرمایا کہ گروہ بندی بڑھ جائے گی تم اْس سے بچنا، مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام سے جْڑ جائو،ان سے پوچھا گیا کہ اگر ان کی جماعت اور امام نہ ہو تو کیا حکم ہے؟ہمارے پیارے نبی نے فرمایاتو تم ان سب گروہوں سے کنارہ کش ہو جانا،فتنوں ے دور میں اپنی زبان اور تحریرپر مکمل قابو رکھنا ،فتنوں کے دور میں لیٹنے والا، بیٹھنے والے شخص سے بہتر ہے، بیٹھا ہوا کھڑے ہوئے شخص سے بہتر ہے،کھڑا ہوا چلنے والے سے بہتر ہے،اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہے،فتنے کے دور میں تم بس اپنے آپکی خصوصی فکر کرو اور لوگوں کی گتھیاں سلجھانا چھوڑ دو یہ تمہارے بس میں نہیں۔