ڈاکٹر ضیاء الحق قمر
آپ 1925ء کو حافظ مولوی سراج الدین کے ہاں بڈھیال، تلہ گنگ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک صاحب علم گھرانے سے تھا۔ آپ کے والد گرامی ایک جید عالم دین تھے۔ اس وقت جب شخصی مدارس کا رواج تھا تب ان کی تدریس کی بڑی شہرت تھی۔ ان کے پاس ہر وقت کم و بیش ایک سو کے قریب طالبان علم جمع رہتے۔ مولانا عالم الدین کی تعلیم کا آغاز اپنے والد گرامی سے ہوا۔ آپ نے ان سے حفظ قران کی سعادت حاصل کرنے کے ساتھ فارسی کی ابتدائی کتب پڑھیں۔ اس کے بعد مقامی سکول میں داخل ہوئے جہاں منشی علی خان (ساکن پاتوال) سے جماعت چہارم تک تعلیم حاصل کی۔ پھر اپنے والد گرامی کے تلمیذ خاص مولوی غلام رسول سے علم صرف کی مروجہ کتب پڑھیں جبکہ علم النحو مولانا محمد عابد سے پڑھا۔ اس کے بعد 1359ھ مزید تعلیم کے لیے جامعہ فتحیہ اچھرہ تشریف لائے۔
یہاں مولانا عبدالخالق بھترالوی، سید دوران شاہ ہزاروی اور بالخصوص آسمان علم کے مہر تاباں مولانا مہر محمد اچھروی سے استفادہ کیا۔ چار سال تحصیل علم کے بعد مزید تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے۔ یہاں آپ نے شیخ العرب والعجم مولانا حسین احمد مدنی، مولانا اعزاز علی، مولانا عبدالخالق، مولانا عبدالشکور، مولانا عبدالحق، مولانافع گل جیسے اساطین علم سے 1945ء میں سند فراغت حاصل کی۔ اس کے بعد آپ کے اساتذہ نے آپ کی تقرری عالم گڑھ ضلع فیروزپور میں کر دی۔ وہیں آپ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ 1947ء کے اوائل میں آپ فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے بذریعہ بحری جہاز سر زمین حجاز تشریف لے گئے۔ حج کے بعد آپ نے مدینہ منورہ میں مدرسہ علوم شرعیہ سے بھی کسب فیض کیا اور سند حاصل کی۔ آپ کے اس سفر سعادت کے دوران آپ کے والد گرامی عالم گڑھ چلے آئے تاکہ طلبہ کا تعلیمی حرج نہ ہو۔
اسی دوران تقسیم ہند کا وقت قریب آتے ہی ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے۔ عالم گڑھ میں چونکہ مسلمانوں کی اکثریت تھی اس لیے نسبتاً خاموشی تھی لیکن فسادات کا الاؤ کسی وقت بھی بھڑک سکتا تھا۔ وہاں سکھیرا خاندان بڑے زمیندار تھے۔ ان کو مقامی انگریز افسر نے بتایا کہ بڑے پیمانے پر فسادات شروع ہونے والے ہیں اس لیے آپ فوری طور پر پاکستان چلے جائیں۔ چنانچہ آپ کے والد حافظ سراج الدین اپنی بہو اور بیٹی کے ہم راہ ایک بڑے قافلے کے ساتھ پاکستان چلے آئے۔ یہاں قافلے کا مستقر چک باڑا سجوار خان ضلع بہاول نگر تھا۔ آپ کی سفر حجاز سے واپسی تک حافظ سراج الدین یہیں قیام پذیر رہے۔
مولانا عالم الدین پاکستان واپس آئے اور چک باڑا سنجوار خان پہنچے تو ان کی ملاقات وہاں کے وڈیرے شاہدے خان سے ہوئی۔ وہ روایتی جاگیر داروں کی طرح کئی قباحتوں میں مبتلا تھا لیکن وہ پہلی ملاقات میں ہی آپ کا اتنا گرویدہ ہوا کہ ہر کام سے تائب ہوگیا۔ اس نے آپ کو معاش کے لیے 11 ایکڑ اراضی اور رہائش کے لیے گھر پیش کیا اور ترویج دین اور نماز پنجگانہ کی ادائیگی کے لیے ایک عالی شان مسجد و مدرسہ بھی تعمیر کروایا۔ آپ 1947ء کے اواخر سے تا دم واپسیں 2004ء تک وہیں درس و تدریس اور خدمت خلق میں مصروف رہے۔ جہاں آپ قیام پذیر تھے وہاں صحت کے حوالے سے اتنی سہولیات نہیں تھیں اور آپ کو حکمت سے خصوصی دلچسپی تھی اس کی بدولت آپ لوگوں کا علاج معالجہ بھی کرتے۔ اپنے اسی شوق کی تکمیل کے لیے آپ نے 1971ء میں درجہ اول میں حکمت کا امتحان پاس کیا۔ اللہ تعالی نے آپ کو چھے بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا۔آپ کی وفات کے بعد آپ کے صاحبزادے مولانا سعید احمد وہاں امامت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔