ہمدرد نونہال اسمبلی کا ایک اجلاس 4 نومبر 2010ءکو ہمدرد مرکز غازی علم الدین شہید روڈ پر منعقد ہوا جس میں مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے شاہین بچوں نے مصورِ پاکستان حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے افکار و خیالات کی ترویج و فروغ کے لئے ”اقبال کے شاہین اور پاکستان کا مستقبل“ کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، اس تقریب کا اہم پہلو وہ بھی تھا کہ پنجاب یونیورسٹی میں ”اقبال چیئر“ کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم اکرام مہمان خصوصی تھے اور پاکستان کے دانشور دندان ساز ڈاکٹر ایم اے صوفی بھی ایک مہمان خاص ہی کے طور پر موجود تھے جن میں حضرت علامہ اقبال کے ایک عقیدت گزار کے طور پر ہم بھی نظر آ رہے تھے، ڈاکٹر محمد اکرم اکرام نے ہمیں دیکھا تو ازراہِ التفات سٹیج سے اٹھ کر ہمارے پاس تشریف لائے اور ”لاہوریات“ کی کوریج کے انداز اور خدمات کی خاموش پذیرائی فرمائی۔ اس تقریب میں واپڈا گرلز ہائی سکول شالیمار ٹا¶ن کی ایک طالبہ مہک صابر نے اسمبلی کی سپیکر کے فرائض ادا کئے اور نہایت ذہانت سے نظامت کے فرائض ادا کرتے ہوئے نونہال اسمبلی کے انعقاد کے حصول کے مقاصد کی جھلک پیش کی جبکہ اسلامک سکول عمر کالونی کے قاری ہارون شبیر نے قرآنِ مجید فرقانِ حمید کی چند آیات تلاوت کر کے اس اسمبلی کی کارروائی کے آغاز کو باقاعدگی عطا کی۔ ان کے بعد دی بیسٹ سکول حفیظ روڈ معصوم گنج لاہور کی طالبہ فاطمہ رضا نے نبی¿ آخرالزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیہ¿ نعت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی، اسی طرح کوئین میری سکول علامہ اقبال روڈ کی مہرال قمر نے نونہال اسمبلی جام پور کے تاثرات پیش کئے اس وقت تک ہا¶س کی کارروائی بڑے کامیاب انداز میں آگے بڑھنا شروع ہو چکی تھی اور دارِ ارقم سکول سمن آباد کی رمیسہ احمد، کریسنٹ ماڈل ہائر سیکنڈری سکول کے عبدالصمد، واپڈا گرلز ہائی سکول شالیمار ٹا¶ن کی ملائکہ صابر، دی مکتب (سکول) کے محمد عبداللہ خرم اور لاہور گرائمر سکول جوہر ٹا¶ن کی انیسہ فاطمہ قادری نے اپنے خیالات کے اظہار کا آغاز کر دیا ہوا تھا اور اتنے پُرجوش اور قابل ستائش انداز میں اپنے ”فنِ تقریر“ کا لوہا منوا رہے تھے کہ اس تقریب کے صاحبانِ علم و فضل مہمانان خصوصی بھی بچوں کے برق رفتار نطق و زبان کے کمالات کا مشاہدہ کر کے حیران ہو رہے تھے، جن مقررین طلبا و طالبات کے اسمائے گرامی خطاب کنندگان کی فہرست میں موجود تھے ان کے علاوہ بھی چند بچوں نے روسٹرم پر آ کر اپنا شوقِ تقریر پورا کیا اور صاحبانِ علم و فن سے داد بھی پائی، آج کی تقریب کے نونہالوں سے مخاطب ہو کر اس ادارے کی سربراہ سعدیہ راشد نے بچوں کو اقبال کی تعلیمات سے مزید آشنا کراتے ہوئے اپنے پیغام میں واضح کر دیا تھا کہ علامہ اقبال کا مخاطب ویسے تو اُمتِ مسلمہ کا ہر فرد ہے لیکن (عہد انگریز کے دوران) ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل کی فکر اور عالمی سطح پر فرزندان توحید کے حالات نے ان کو جس حد تک متفکر کیا ہوا تھا اس کے باعث انہوں نے مسلمان نوجوانوں کی توجہ خصوصی طور پر اور بار بار اپنے افکار و خیالات کی طرف منعطف کراتے رہنے کا سلسلہ جاری رکھا کیونکہ جناب علامہ اقبال اپنے پورے وجدان و ادراک سے اس حقیقت کو سمجھتے تھے کہ دنیا میں وہی اقوام سربلند و سرفراز ہیں جو علوم و فنون کے میدان میں نہ صرف اپنے اپنے دور بلکہ آنے والے ادوار کے تقاضوں سے بھی پوری طرح آگاہ ہوں اور ان پر پورا اتر جانے کی صلاحیت کے حامل ہو جانے کی تیاری کرتی رہیں، تقریباً ایسے ہی خیالات کا اظہار ڈاکٹر محمد اکرم اکرام نے بھی کیا اور بچوں کی تقاریر سے متاثر ہو کر ان کو ”شاباش“ کہہ دینے کے اسلوب میں فرمایا کہ میں آپ کی تقاریر اور اظہارِ جذبات و اندازِ گفتگو سے بہت متاثر ہوا ہوں اور میں نے اس حقیقت کو ایک بار پھر پوری شدت سے محسوس کیا ہے کہ علامہ اقبال کے کلام نے ہمارے اندر اپنے انداز فکر و ادراک کی ایک نئی روح پھونک دی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر ایم اے صوفی نے اپنی لکھی ہوئی تقریر پڑھی جو علامہ اقبال کے اردو اشعار سے مزین تھی، آخر میں بچوں نے نہایت کامیابی سے ایک ”ٹیبلو“ بھی پیش کیا اور ان کو انعامات بھی دئیے گئے۔