لاہور (رپورٹ : اویس قریشی سے) یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام کے ریجنل پراجیکٹ کے ذمہ داران کے مطابق 2013ءتک پاکستان میں پانی کی شدید کمی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔کمی کی وجوہات زراعت‘ صنعت اور گھروں میں پانی کا بڑھتا ہوا غیر ضروری استعمال اور ناکافی آبی ذخائر ہیں۔ پانی کی سالانہ فی کس دستیابی 1951ءمیں 5300 مکعب میٹر تھی جو 2009ءتک گھٹ کر تقریباً ایک ہزار مکعب میٹر رہ گئی ہے۔ یو این ڈی پی کے مطابق پانی کی کمی سے بچنے کے لئے کسی بھی ملک میں آبی وسائل کی سالانہ فی کس دستیابی ایک ہزار مکعب میٹر سے کم نہیں ہونی چاہئے۔ پاکستان کی 3 اچھی شہرت والی لیبارٹریز کی ریسرچ کے مطابق واسا حکام کی غفلت اور روایتی ہٹ دھرمی کے باعث ابھی بھی لاہورئیے سینکھیا ملا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ لاہور میں 452 ٹیوب ویلز میں سے 362 میں سنکھیا موجود ہے۔ صرف پوش ایریاز کو 68 ٹیوب ویل صاف پانی مہیا کر رہے ہیں۔ واسا کی سرکاری لیبارٹریوں میں سیاسی سفارشوں پر بھرتی نان ٹیکنیکل فوج کے باعث پانی کا معیار چیک کرنے والی مشینری بھی ناکارہ ہو چکی ہے۔ خراب پڑے ٹیوب ویلوں کا ماہانہ لاکھوں روپے کا ڈیزل ملی بھگت سے چوری ہو رہا ہے۔ وزیراعلیٰ کے بھاری فنڈز دینے کے باوجود جنریٹروں کا نام و نشان نہیں۔ پنجاب حکومت اور ڈونر ایجنسیوں نے غریب علاقوں میں وافر صاف پانی کی فراہمی کے لئے متعدد بار فنڈز دئیے تاہم کرپٹ مافیا اور بیوروکریٹس کی صرف فائل ورک میں ہی خرچ ہو گئے۔