ریاست جموں کشمیر کے 84 ہزار مربع میل کے بلند و بالا پہاڑوں، گھنے جنگلات، شاداب وادیوں، دریا¶ں اور ٹھنڈے بہتے چشموں اور قدرتی ہَوا¶ں، پھولوں سے بھرے کھیتوں میں آباد 80 فیصد مسلمانوں پر صوبہ جموں کے چار اضلاع اودھم پور، جموں، کٹھوعہ اور ریالی کے ڈھائی لاکھ مسلمان گاجر مولیوں کی طرح کاٹ دئیے گئے تھے اور 5 لاکھ مسلمانوں کو سیالکوٹ کی سرحد کے ذریعے پاکستان دھکیل دیا گیا تھا، یہ کوئی اچانک یہ بربریت برپا کی گئی نہ تھی، اس خون کےلئے خود ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی فوج جس کا وہ کمانڈر اِنچیف تھا نے جرنیلوں، اپنی ڈوگرہ برادری کے سرداروں، سوک سنگھ کے کمانڈروں اور ہندو¶ں کے مسلح دستوں کے ساتھ مشاورت کے ذریعے منصوبہ بندی کی گئی ۔ ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی ہندوستان کی قیادت کی نظریں ان خدشات کے پیش نظر کہ تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق پاکستان میں شامل ہو گیا تو ریاست جموں کشمیر، پاکستان معاشی اور دفاعی طور پر بڑا مضبوط اور خوشحال ملک بن جائے گا اور مسلمانوں کے دلوں میں خوشی کے جذبات مچل رہے تھے کہ ریاست جموں کشمیر پاکستان میں شامل ہو گی اور پاکستان دنیائے اسلام کا ایک طاقتور اور خوشحال بازو ہو گا، ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ اور اسکی برادری کے لوگوں کو دوہرا غم کھا رہا تھا ایک یہ کہ ہندوستان کے ہندو¶ں کی طرح انہیں بھی پاکستان کا قیام قبول نہ تھا، دوسرا یہ کہ ان کا ریاست پر اقتدار ختم ہو جائےگا۔ ریاست جموں کشمیر کی 60 فیصد مسلمان آبادی میں صوبہ کشمیر کی آبادی 98 فیصد مسلمان اور صوبہ جموں میں 67 فیصد مسلمان تھے۔ صوبہ جموں کے چار اضلاع اودھم پور، جموں، کٹھوعہ، ریالی اور ریاست میں ڈوگرہ مہاراجہ کا تسلط زیادہ تھا۔ ان اضلاع کو ہی قتل و خونریزی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ 4 نومبر کو جموں کے ہزاروں مسلمانوں جو پولیس لائن میں اپنے گھر بار چھوڑ کر جمع تھے بسیں لا کر انہیں چکمہ دیا گیا کہ وہ بسوں پر سوار ہو جائیں انہیں سیالکوٹ پہنچایا جائےگا۔ خوف کے مارے مسلمان ان بسوں میں سوار ہو گئے، بسوں کا یہ قافلہ سیالکوٹ کی سرحد پر جانے کے بجائے ایک گا¶ں ماہوا کی طرف موڑ دیا گیا جہاں پر منصوبہ بندی کے تخت فوج راشٹریہ سنگھ اور برادری کے مسلح خونخوار نظروں سے منتظر تھے، وہ ان بے بس مسلمانوں پر درندوں کی طرح جھپٹ پڑے، انہیں گاجر مولیوں کی طرح کاٹ دیا گیا۔ اس بہیمانہ کارروائی کی اطلاع پولیس لائن میں مجبور بیٹھے ہزاروں مسلمانوں کو پہنچا دی۔ ایسا خونیں ڈرامہ 5 نومبر کو بھی کھیلا گیا اور 6 نومبر کو بسوں کا قافلہ ماہوا میں لے جایا گیا۔ اس طرح تین تک ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، 6 نومبر کو جون خون سے لت پت بسیں پولیس لائن پہنچیں تو ان بسوں میں چھپ کر ایک مسلمان نوجوان قتل گاہ سے بچ کر پولیس لائن پہنچا اور اس نے اطلاع دی کہ تین دن بسوں پر سوار ہزاروں مسلمانوں کو ماہوا میں قتل کر دیا گیا ہے۔
اس نسبت سے 6 نومبر کو یوم شہدائے جموں منایا جاتا ہے۔ 4 نومبر کو ہی ریاست میں مسلمانوں کے دو معزز بزرگ خواجہ امکلہ اور چودھری عزیز الدین شکایت لےکر ڈوگرہ ڈپٹی کمشنر ٹھاکر گوردھن سنگھ کی رہائش گاہ پر گئے کہ ڈوگرہ فوج شہر میں کیوں داخل ہوئی ہے۔ دونوں کی گردنیں ڈپٹی کمشنر کی دہلیز پر ہی اڑا دی گئیں اور اس سگنل پر ڈوگرہ فوج راشٹریہ سوک کے مسلح دستوں نے مسلمانوں کو شہر میں خون میں نہلا دیا۔ ریاست کے سب سے بڑے ضلع اودھم پور میں 4 نومبر کو ضلع کے ڈپٹی کمشنر راجہ سرور خان گھر سے جیپ پر نکلے کہ شہر کی صورتحال دیکھ لیں، سڑک پر انکی جیپ روک کر انہیں اتارا گیا اور گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ وہاں بھی اس سگنل پر ہزاروں مسلمان موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔ یہی حشر ضلع کٹھوعہ کے مسلمانوں کا کیا گیا۔ ریاست جموں کشمیر کے پاکستان سے ممکنہ الحاق کو روکنے کےلئے جہاں بھارت نے کشمیر پر فوج کشی کی وہاں جموں کے ڈھائی لاکھ مسلمانوں کا قتل عام اس کڑی کا حصہ تھا۔ اتنی شہادتیں اور ہلاکتیں ہندوستان کے شہروں میں نہیں ہوئی تھیں، جموں کے مسلمانوں کی یہ عظیم قربانیاں ریاست جموں کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے اعلیٰ مقصد کےلئے دی گئی تھیں، جب تک یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا ان قربانیوں کی یاد ایک رستے ہوئے زخم کی طرح ہیں اس مقصد کو زندگی عطا کرتی رہے گی ۔