سروسز ہسپتال کے ڈاکٹروں نے جس خاتون کو مردہ قرار دے کر ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کردیا‘ اس خاتون کے بھائی نے جب پمپنگ کی تو سانسیں چل پڑیں۔ دوبارہ علاج سے نئی زندگی ملی گئی۔
آخر آج کے مسیحاﺅں اور اصل مسیحاﺅں میں کچھ فرق تو ہونا چاہیے‘ وہ مردوں کو زندہ اور یہ زندہ کو مردہ کرنے میں طاق ہیں۔ ہم خواہ مخواہ ہی امریکہ کو الزام دیتے ہیں کہ اسے انسانی جان ضائع ہونے کی پروا ہی نہیں‘ یہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ تو سپریم کورٹ میں جانا چاہیے تاکہ زندوں کو سزائے موت دینے کے جرائم کی سزا کا تعین تو ہو جائے۔ سروسز ہسپتال کی بڑی شہرت ہے اور یہ عوام کے پیسے سے چلتا ہے‘ یعنی سرکاری ہے اس لئے عوام کی موت و حیات یہاں برابر ہے۔ سروسز ہسپتال کے ڈاکٹروں کو کسی کے سانس رکنے کی اتنی جلدی کیوں ہے جبکہ غالب جیسے عظیم شاعر کہہ گئے ہیں....
نغمہ ہائے زندگی ہی کو غنیمت جانیئے
بے صدا ہو جائیگا یہ ساز ہستی ایک دن
جدائیاں مت اختیار کریں کہ جدا کرنے کو موت کافی ہے۔ اس زندگی کو اس طرح گزاریئے جیسے کسی نے کہا ہے....
سنو سہیلی پریم کی باتا
اینوے مل جائیو جیوں دودھ نباتا
موت الگ چیز ہے‘ بیماری الگ‘ علاج کا مقصد موت تک کا سفر آسانی سے طے کرنا ہے‘ موت تو ڈیڈ اینڈ کا نام ہے‘ جہاں تک کوئی صحت مند انسان بھی اپنی لکھی کے مطابق پہنچ سکتا ہے۔ زندگی کی بات کریں‘ خوشی کیلئے بہانے ڈھونڈیں کہ وقت اتنا زیادہ نہیں۔ ویسے ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کرنیوالے کا نام اس سرٹیفکیٹ پر درج کرکے جاری کردینا چاہیے تاکہ ہسپتال کا کاروبار چلے۔
٭....٭....٭....٭
کراچی میں بہن کی شادی پر بھائیوں نے ہوائی جہاز کے ذریعے پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔
خدا شاہد ہے کہ یوں لگا جیسے پھولوں کی ان پتیوں کی خوشبو ہمارے مشامِ جاں کو معطر کر گئی۔ بہنیں بہت عزیز ہوتی ہیں اور بھائیوں کو تادم آخر نہیں بھولتیں۔ بھائیوں کی خاطر جائیداد میں سے اپنا حصہ چھوڑنے کے سرٹیفکیٹ پر بھی انگوٹھا لگا لیتی ہیں۔ ممکن ہے مغربی ملکوں میں بہنیں ایسا نہ کرتی ہوں اور انہیں ازخود حصہ مل جاتا ہو مگر یہ جو کراچی کے بھائیوں نے اپنی بہن کی شادی پر پتیاں نچھاور کی ہیں‘ یہ ان کا حصہ بھی ان کو دیتے ہیں یا نہیں‘ کیونکہ کیا پتہ پھولوں کی پتیاں بہنوں کو جائیداد سے دستکش ہونے پر آمادہ کر دیں کہ ایسے پھول بھائیوں سے پھولوں کی پتیاں ہی کافی ہیں۔ بہنیں کبھی اپنے بابل کے مال و متاع میں سے کچھ لینے کی توقع نہیں رکھتیں‘ کیونکہ یہاں عورت اتنی کمزور اور غیرمحفوظ ہے کہ بہنیں جائیداد چھوڑنا برداشت کر سکتی ہیں‘ بھائیوں کو نہیں چھوڑ سکتیں تاکہ وہ خاوند کی زیادتیوں سے بچی رہیں۔ بعض بھائی ایسے نہیں بھی ہوتے۔ وہ بہنوں کو نہ صرف ان کا حصہ دیتے ہیں بلکہ انکے ساری زندگی محافظ بھی رہتے ہیں۔ بہن سے پیار کی جو مثال مثلِ برگ گل کراچی کے بھائیوں نے قائم کی ہے‘ اسکی خوشبو پورے پاکستان میں پھیل گئی ہے۔ خدا کرے کہ بہنوں سے پیار اور عملی تعاون کی بھائیوں کو توفیق ملتی رہے کہ بہنیں بھائیوں کے سہرے ہوتی ہیں۔
٭....٭....٭....٭
چیف الیکشن کمشنر نے وحیدہ شاہ سے متعلق تھپڑ کیس کے بارے میں نااہلی کا فیصلہ برقرار رکھا‘ یاد رہے وحیدہ شاہنے اپنے شوہر مرحوم کی سندھ اسمبلی کی نشست پر ہونیوالے ضمنی انتخاب میں خاتون پریذائیڈنگ افسر کو تھپڑ مارے تھے‘ جس کی پاداش میں الیکشن کمیشن نے انہیں انتخاب لڑنے کیلئے نااہل قرار دے دیا تھا۔
یہ پہلا تھپڑ ہے جو سراپا نااہلی بن کر وحیدہ شاہ کو واپس پڑ گیا۔ جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی یہ نسوانی کوشش آخر رنگ لے ہی آئی کیونکہ....ع
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
عورت جب عورت کا احترام نہیں کرےگی تو مرد سے وہ کیا توقع رکھ سکتی ہے۔ بہرحال مرد ہو یا عورت کسی کو کسی کے چہرے پر تھپڑ رسید کرنے کا اختیار نہیں۔ ایسے تھپڑ بہت دور تک مار کرتے ہیں اسلئے زبان اور ہاتھ کو قابو میں رکھنا چاہیے۔ امریکہ میں سینڈی آنے کے باوجود انتخابات بروقت ہونگے‘ ہمارے ہاں کوئی سونامی بھی نہیں آئی پھر بھی انتخابات کی تاریخ تاحال مقرر نہیں کی گئی۔ اس طرح کے امور کا کیلنڈر پہلے سے مرتب کرلینا چاہیے۔ چیف الیکشن کمشنر فخرالدین ابراہیم جی نہایت دیانتدار انسان ہیں‘ انکی سربراہی میں ہیرا پھیری کا امکان نہیں لیکن ہیرا پھیری کرنیوالے بھی اپنے فن کے ماہر ہوتے ہیں اور انہوں نے اپنی تیاری کرلی ہوگی۔ اب الیکشن کمیشن کی ”کڑکی“ سے کیسے بچ نکلتے ہیں‘ اس لئے الیکشن کمیشن بھی بے ایمانی کے کلیدی مقامات پر پھندے لگا دے کہ جھرلو ماسٹرز بھی اپنے فن کو ازکار رفتہ قرار دیدیں۔
٭....٭....٭....٭
منظور وسان فرماتے ہیں‘ عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہونگے۔
سیاسی بیانات بھی وسان کے خوابوں کی مانند ہوتے ہیں‘ اسلئے ہم کامیابی کے حتمی دعوے کرنیوالے تمام سیاست دانوں سے کہیں گے کہ وہ سیاست دان بنیں‘ منظور وسان نہ بنیں۔ انکے کتنے خواب اب تک چکناچور ہو گئے مگر وزارت کا بھانڈا پھر بھی محفوظ ہے‘ شاید "Unbreakable" ہے۔ آئندہ انتخابات میں کون کامیاب ہو گا‘ یہ سب سے بڑھ کر اہل اقتدار کو معلوم ہونا چاہیے کیونکہ انکی خدمات کو بھول کر کوئی کسی اور کو ووٹ کیسے دے سکتا ہے۔ لیلائے انتخابات کی خدمت میں پپلیئے عرض کرتے ہیں....
قمیص تیری کالی تے سوہنے پھلاں والی
بھانویں وسیں تو ولیت اسی کرنی نئیں ریت
تینوں لے کے جانا اے بلاول ہاﺅس
منظور وساں ماہر خواب بینی ایسے عظیم انسان ہیں کہ انکی وزارت سے لوگوں کو کوئی گزند نہیں ملا‘ وہ ....
وزارت کی ٹھنڈی سڑک پر چل رہے ہیں
دُزدیدہ دُزدیدہ خوابیدہ خوابیدہ
لگتا ہے پیپلز پارٹی کے پاﺅں بھاری ہو گئے ہیں‘ اب تو وہ ضرور ہمدردی کا ووٹ لے کر بھی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گی۔
منگل ‘ 20 ذی الحج 1433ھ 6 نومبر2012 ئ
Nov 06, 2012