ہم ملزم کو مجرم قرار نہیں دے سکتے‘ کسی فرد یا ادارے کو ملکی مفاد کے حتمی تعین کا حق نہیں: آرمی چیف

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر + اے پی اے) چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ کسی بھی فرد یا ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ملکی مفاد کا حتمی تعین کر سکے۔ عوام کی حمایت مسلح افواج کی طاقت کا منبع ہے۔ اداروں کی مضبوطی قانون کی بالادستی اور سب اداروں کا آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی ایک بہتر مستقبل کی ضمانت ہے، کچھ کر گزرنے کی تیزی کے مثبت اور منفی دونوں نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس ضمن میں دو سوالوں کو پرکھنا چاہئے کہ کیا اس رویہ کی بدولت ہم قانون کی حاکمیت و آئین کی بالادستی قائم کر رہے ہیں اور دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اداروں کو مضبوط کر رہے ہیں؟ آئی ایس پی آر کے مطابق انہوں نے جی ایچ کیو میں افسروں سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ”بحیثیت قوم ہم انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں ہم سب اپنی ماضی کی غلطیوں کا ناقدانہ جائزہ لے رہے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ مستقبل کے لئے صحیح راستے کا انتخاب کر سکیں۔ مسلسل بحث و مباحثہ اس عمل کا ایک فطری حصہ ہے لیکن کسی بھی فرد یا ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ملکی مفاد کا حتمی تعین کر سکے۔ یہ صرف اتفاق رائے سے ہی ممکن ہے اور سب پاکستان کو رائے دینے کا حق ہے، آئین میں اس کا طریقہ کار بڑا واضح ہے۔ ہمارے کاندھوں پر ایک انتہائی اہم ذمہ داری ہے ہمیں چاہئے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھیں، حال کی بہتر تعمیر کریں اور ایک بہتر مستقبل پر نظر رکھیں، ہم سب متفق ہیں کہ اداروں کی مضبوطی قانون کی بالادستی اور سب اداروں کا آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی ایک بہتر مستقبل کی ضمانت ہے۔ اداروں کو کمزور کرنا یا آئین سے تجاوز ہمیں صحیح راستے سے ہٹا دے گا یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم صحیح بنیادیں استوار کریں اور دانستہ اور نادانستہ کوئی ایسا کام نہ کریں جو بظاہر تو صحیح لگتا ہو لیکن مستقبل میں اس کے منفی نتائج نکلنے کے امکانات زیادہ ہوں۔ عوام کی حمایت مسلح افواج کی طاقت کا منبع ہے، اس کے بغیر قومی سلامتی کا تصور بے معنی ہے اس لئے کوئی بھی دانستہ یا نادانستہ کوشش جو مسلح افواج و عوام کے درمیان دراڑ ڈالنے کا باعث بنے وسیع تر قومی مفاد کے منافی ہے۔ تعیمری تنقید مناسب سہی لیکن افواہ سازی کی بنیاد پر سازشوں کے تانے بانے بننا اور بنیادی مقاصد کو ہی مشکوک بنا دینا کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ افواج پاکستان کی مضبوطی اور یکجہتی درحقیقت پاکستانی عوام کے اعتماد پر منحصر ہے، اس اعتماد کو مضبوط بنانے سے ہی پاکستان کی سلامتی اور دفاع مضبوط ہو گا۔ ساتھ ہی ساتھ افواج کی قیادت اور سپاہ کے مابین اعتماد کا رشتہ بھی انتہائی اہم ہے، کوئی بھی کوشش جو اس رشتے کو تقسیم کرنے کا باعث بنے برداشت نہیں کی جا سکتی ایسا صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کا دستور ہے۔ ماضی میں ہم سب نے غلطیاں کی ہیں بہتر ہو گا کہ ہم فیصلے قانون پر چھوڑ دیں چونکہ ہم سب قانون کی عملداری چاہتے ہیں اس لئے ہمیں یہ بنیادی اصول نہیں بھولنا چاہئے کہ ملزم صرف اسی صورت میں مجرم قرار پاتا ہے جب جرم ثابت ہو جائے۔ ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ہم اپنے طور پر کسی کو بھی چاہے وہ سویلین ہو یا فوجی مجرم ٹھہرا دیں اور پھر اس کے ذریعہ پورے ادارے کو مود الزام ٹھہرانا شروع کر دیں۔ آج پاکستان میں سب ادارے کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں لیکن اس کوشش میں تیزی کے کچھ اچھے اور کچھ منفی نتائج بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ایک لمحے کے لئے رکیں اور دو بنیادی سوالات کو دوبارہ پرکھیں، پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ہم قانون کی حاکمیت و آئین کی بالادستی قائم کر رہے ہیں؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم ادارں کو مضبوط کر رہے ہیں؟ آخرکار اگر ہم نے پاکستان کی صحیح خدمت کرنی ہے تاریخ اور آئندہ نسلوں کے سامنے سرخرو ہونا ہے تو بہرحال ان دو سوالوں کے جواب مثبت ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں سب نے غلطیاں کی ہیں، بہتر ہو گا فیصلے قانون پر چھوڑ دیں، ملزم صرف اس صورت میں ہی مجرم قرار پاتا ہے جب جرم ثابت ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت قوم ہم انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں، سب اپنی ماضی کی غلطیوں کا ناقدانہ جائزہ لے رہے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ مستقبل کے لئے ایک صحیح راستے کا انتخاب کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلسل بحث و مباحثہ اس عمل کا ایک فطری حصہ ہے۔ انہوں نے کہا فوجی قیادت اور سپاہ میں تقسیم کی کوشش برداشت نہیں کریں گے

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...