اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ / ثناءنیوز) چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی بناوٹ، اختیارات اور دائرہ کار آئین میں طے کردہ ہیں وہ دن گئے جب ملکی استحکام کا تعین اسلحہ، میزائلوں، ٹینکوں سے ہوتا تھا آج کے دور میں قومی تحفظ کے نظریات تبدیل ہو رہے ہیں آئین کے رکھوالے کی حیثیت سے جج صاحبان پر بھاری ذمہ داری ہے سپریم کورٹ ملک میں حتمی اختیارات کی حامل عدالت ہے، سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابندی تمام ملکی عدالتوں پر لازم ہے، ساتویں مینجمنٹ کورس کے شرکاءسے خطاب میں انہوں نے کہا کہ عدالتیں بہت سے معاشی مسائل کے معاملات سے نبردآزما ہیں، اداروں، اتھارٹیز کے اقدامات پر آئین کی بالادستی رکھنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے معاشی و سماجی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے قابل بیورو کریسی کی ضرورت ہے، قومی ادارے چلانے کیلئے تربیت یافتہ بیورو کریسی کی ضرورت ہے۔ انتظامیہ اور عملداری ڈھانچے کی ناکامی ہر جگہ نظر آتی ہے قومی ترقی کی بنیاد چار ستونوں پر ہے جن میں اداروں کی مضبوطی، بنیادی ڈھانچہ، معاشی استحکام، صحت و تعلیم شامل ہیں۔ عدلیہ بنیادی حقوق کے تحفظ اور قانون کی حکمرانی قائم کر رہی ہے عدلیہ پرانی غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے نئی تاریخ رقم کررہی ہے۔ فیصلوں میں اداروں کو حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے کی ہدایت کی، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اپنے خطاب میں سوالات اٹھاتے ہوئے پوچھا کیا ہم صلاحیت اور محنت کی قدرکرتے ہیں؟ کیا قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے اصول کا اطلاق صحیح ہو رہا ہے؟ کیا ملک کے شہریوں کو نظام پر اعتماد ہے؟ کیا شہری سمجھتے ہیں کہ انہیں خوابوں کی تعبیر شفاف اور درست طریقے سے مل رہی ہے؟ کیا ہمارے پاس ایسا نظام ہے جہاں دیوانی اور ملکیت کے حقوق محفوظ ہیں؟ اگر سوالات کا جواب ہاں میں ہے تو کہہ سکتے ہیں قواعد وضوابط شفاف اور درست ہیں کیا موجودہ نظام میں طاقت ہے کہ بددیانتوں اور منافع خوروں کی حوصلہ شکنی کرے؟ بلوچستان اور کراچی کی امن و امان کی صورتحال ہو کمزور انتظامیہ ہر جگہ ہے ایسا نظر آتا ہے کہ قومی بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کی کوششیں نہیں کی گئیں ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ہمارے پاس بہت سازگار ماحول ہے ہمارے پاس متحرک میڈیا ہے جو عوامی مفادات کے تحفظ کیلئے نگران کا کردار نبھا رہا ہے۔ ہمارے پاس سیاسی جماعتوں کا ایک امتزاج موجود ہے ان سیاسی جماعتوں کے پاس عوامی فلاح کا کم و بیش ایک جیسا ایجنڈا ہے ہمارے پاس صحیح معنوں میں خودمختار عدلیہ ہے، عدلیہ کی اولین ترجیح قانون کی بالادستی اور آئین کی حکمرانی کے اصول پر قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین و قانون کے تحت ہی معاشرتی ترقی کے لئے سازگار ماحول فراہم ہو سکتا ہے، ضابطوں کی خلاف ورزی معاشرے کو انتشار اور بے امنی کی طرف لے جائے گی۔اے پی پی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کی بالادستی قائم کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ دن گئے جب ہتھیاروں کی تعداد ریاست کے طاقتور ہونے کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو تفویض کردہ اختیارات آئین کے دئیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ اداروں میں عملدرآمد کا فقدان نظر آتا ہے۔ کمزور انتظامیہ عملدرآمدی ڈھانچے کی ناکامی ہر جگہ نظر آتی ہے۔ اس ڈھانچے میں تبدیلی کیلئے کوئی کوشش نہیں کی گئی مگر اب بھی کچھ بگڑا نہیں۔ ہمارے پاس سازگار ماحول اور صحیح معنوں میں خودمختار عدلیہ موجود ہے۔ متحرک میڈیا عوامی مفادات کے تحفظ کیلئے نگران کا کردار نبھا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا امتزاج موجود ہے جن کے پاس عوامی فلاح و بہبود کا کم و بیش ایک جیسا ایجنڈا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان اور کراچی کی صورتحال سمیت کمزور انتظامیہ ہرجگہ موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم نے کہا تھا کہ وزیراعظم آتے جاتے رہتے ہیں ہم نے کام کرنا ہے۔ ریاست کے ملازم ہونے کی حیثیت سے کسی سے غرض نہ رکھیں۔