خطے میں امن سب کی ضرورت ہے مگر ہر حریف من پسند امن کا خواہاں ہے جبکہ امن عدل، انصاف اور رواداری کے بغیر ناممکن ہے۔ پاک افغان خطے (افپاک) میں امن کے 3 حریف ہیں جن میں دو بظاہر حلیف ہیں مگر یہ حلف اور دوستی حقیقت پسندی سے زیادہ خوف اور دباؤ کے تحت ہے۔ خطے میں تیسرا حریف مزاحمتی گروپوں کا ہے جو افغانستان اور پاکستان کے قبائلی عوام ہیں۔ خطے میں امن مذاکرات کی پالیسی اور خواہش کا اظہار خطے کی فی الحال مضبوط ترین طاقت امریکہ نے کیا ہے۔ امریکہ افغانستان کے علاقے بگرام میں ریاستی اڈہ بنا چکا ہے اور اب بگرام انتظامیہ خطے میں امن، سلامتی، ترقی اور خوشحالی کی خواہاں ہے۔ خطے میں امن کا ثمر اور لاحقہ تجارت اور تجارتی راہداری پر موثر گرفت یعنی کنٹرول سے آتا ہے لہٰذا امریکہ نے خود مزاحمتی طالبان اور سابق افغان حکمران ملا عمر سے مذاکرات کی التجا شروع کر رکھی ہے جبکہ ملا عمر اوران کے حلقہ اثر میں پاک افغان مجاہد طالبان کے دو واضح مطالبات اور اہداف ہیں۔ خطے سے امریکی و اتحادی فوجی انخلاء اور قرآن و سنت پر مبنی شریعت اسلامیہ کے سرکاری نفاذ تک جہاد جاری رہے گا۔ امریکہ کو معلوم ہے کہ خطے میں امن ملا عمر کی مرضی اور رضا مندی کے بغیر ناممکن ہے۔ لہٰذا امریکہ کی پالیسی ہے کہ پاکستان امیر المومنین ملا عمر سے مذاکراتی عمل میں ’’وچولئے‘‘ کا کردار ادا کرے اور پاکستان کی امریکہ نواز ریاستی سلامتی کا محافظ امریکی انتظامیہ ہے اور پاکستان امریکی مرضی کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرے۔ امریکہ نے پاکستانی انتظامیہ میں موثر نیٹ ورک قائم رکھا ہے جس کا اظہار وزیراعظم نوازشریف اور ان کے وزیر اطلاعات پرویز رشید کے متضاد بلکہ متصادم بیانات سے واضح ہے جو حکیم اللہ محسود کی موت اور اثرات سے جنم لے رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی و اتحادی قبضے نے پاکستان کے قبائلی عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ پاک افغان قبائلی عوام صدیوں سے جنوبی ایشیا میں روحانی اور عسکری رہنمائی کا مرکز رہے ہیں اور یہ روایت تاحال قائم ہے اس خطے کی روایت ہے کہ یہ غیر ملکی تسلط کسی طور بھی قبول نہیں کرتے اور موجودہ تاریخ میں یہ علاقے برطانیہ‘ روس اور اب زوال آمادہ امریکہ جیسی عالمی طاقتوں کی شکست و ریخت کا ذریعہ رہے ہیں۔ امریکہ کا اولین ہدف پاک فوج اور آئی ایس آئی کا نیشنلسٹ طبقہ ہے جو بہرصورت پاکستان کی آزاد خودمختار اور خوددار اسلامی شناخت کو قائم رکھنا چاہتا ہے اور یہی شناخت اکھنڈ بھارت کے خلاف سب سے بڑی ڈھال ہے۔
پی ٹی آئی کی پالیسی قابل تحسین ہے کہ امریکہ سے آنکھ میں آنکھ ڈال کر کھل کر بات کی جائے کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرے۔ ڈرون حملے بند کرے اور پاکستان کی عوام اور انتظامیہ کا احترام کرے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان امریکی ناراضی کا متحمل ہو سکتا ہے ؟ کیا ڈرون حملے بند کرائے جا سکتے ہیں؟ کیا نیٹو سپلائی بند کی جا سکتی ہے؟ یہ سب کچھ ممکن ہے اس کے لئے ہمت، جرأت اور غیرتمند قیادت درکار ہے اور ایسی قیادت کی روایت بھی پاکستان میں موجود ہے ۔ پاکستان ڈرون جہاز گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ حالیہ جنگی مشقوں کی نمائش میں امریکی و بھارتی سفیر کو ڈرون جہاز گرانے کے مناظر دکھائے گئے۔ ڈرون حملے خاموش رضامندی سے ہو رہے ہیں مگر ضیاء الحق انتظامیہ نے آہنی عالمی طاقت روس کے جہاز جو پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے تھے گراؤنڈ کرکے جیل میں ڈال دیئے جاتے تھے اور اس لئے احتجاج نہیں کرنا تھا کہ اسے پاکستان کی دفاعی طاقت کو عالمی طور کرنا پڑتا تھا۔ فی الحقیقت پاکستان اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے۔