نئی دہلی (نوائے وقت نیوز+ بی بی سی) بھارت کا پہلا خلائی مشن ’منگل یان‘ مریخ کی جانب روانہ ہوگیا جس کے بعد بھارت سرخ سیارے پر کامیابی سے خلائی مشن روانہ کرنے والا پہلا ایشیائی ملک بن گیا۔ مریخ کی جانب بھیجا جانے والا سیارہ 30 نومبر تک زمین کے مدار میں رہے گا اور اس کے بعد بنگلور میں واقع خلائی مرکز میں نصب ریموٹ نظام کے ذریعے اسے مریخ کے نو مہینے کے طویل سفر پر روانہ کیا جائے گا۔ اس مشن میں کوئی خلاباز نہیں گیا۔ مریخ زمین سے 40 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور ’منگل یان‘ 12 ستمبر 2014 کو مریخ کے مدار میں داخل ہوگا۔ اس مشن پر کل ساڑھے چار ارب روپے لاگت آئی ہے اور اسے بھارت کے خلائی پروگرام میں ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اگر یہ مشن مریخ کے مدار تک کامیابی سے پہنچ گیا تو بھارت کی خلائی ایجنسی اسرو امریکہ، روس اور یورپی یونین کی خلائی ایجنسیوں کے بعد چوتھی ایسی ایجنسی ہوگی جو مریخ تک جہاز پہنچانے میں کامیاب ہو گی۔ اس خلائی جہاز میں پانچ مخصوص آلات موجود ہیں جو مریخ کے بارے میں اہم معلومات جمع کرنے کا کام کریں گے۔ ان آلات میں مریخ کی سطح پر زندگی کی علامات اور میتھین گیس کا پتہ لگانے والے سینسر، ایک رنگین کیمرہ اور سیارے کی سطح اور معدنیات کا پتہ لگانے والا تھرمل امیجنگ سپیکٹرومیٹر جیسے آلات شامل ہیں۔ 2008 میں چاند کے لئے بھارت کی بغیر انسان کے مہم انتہائی کامیاب رہی تھی۔ اس مہم سے ہی چاند پر پانی کی موجودگی کا پہلا پختہ ثبوت ملا تھا۔ اسرو کیلئے کام کرنے والے بنگلور کے پانچ سو سے زیادہ سائنس دانوں نے اس دس کروڑ ڈالر کی مہم پر دن رات کام کیا ہے۔ بھارت مریخ مہم کو اپنے حریف چین کو سرخ سیارے تک پہنچنے کی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دینے کے موقعے کے طور پر دیکھتا آیا ہے۔ خیال رہے کہ مریخ کے لیے بھیجی جانے والی مہمات میں سے ’مارز ایکسپریس‘ کے علاوہ کوئی بھی مہم کامیاب نہیں ہوئی۔ اس مہم میں یورپ کے بیس ممالک کو نمائندگی حاصل ہے تاہم بھارت کا دعویٰ ہے کہ اس کی مریخ مہم پر پچھلی نصف صدی میں سیاروں سے متعلق سب سے کم اخراجات آئے ہیں تاہم کچھ لوگوں نے اس سائنسی مقصد پر سوال اٹھائے ہیں۔ دہلی سائنس فورم نامی تھنک ٹینک کے ڈاکٹر رگھونندن کا کہنا ہے یہ مہم اعلیٰ معیار کی نہیں ہے اور سائنس سے منسلک اس کے مقاصد بھی محدود ہیں جبکہ ماہرِ اقتصادیات جبادریذ نے کہا کہ یہ مہم یہ مشن سپرپاور بننے کی بھارت کی گمراہ کن خواہش تھی۔