جنداللہ کون؟ لاہور کے بعد کراچی میں خوف

Nov 06, 2014

 شہزاد چغتائی
طالبان کے بعد کراچی پر ایک جانب داعش کا خوف طاری ہوگیا تو دوسری جانب محرم الحرام میں دہشت گردی کی کارروائیوں اور بم دھماکوں نے شہریوں کے اعصاب شل کر دئیے ہیں۔ شہر میں دہشت گردی کی اطلاعات پائی جاتی تھیں لیکن محرم الحرام میں مختلف علاقوں میں شب خون مارے گئے جس کے نتیجے میں خوف و ہراس موجود رہا۔ سب سے پہلے عائشہ منزل فلائی اوور سے اسلامک ریسرچ سینٹر میں محرم کی مجلس کے دوران فلائی اوور سے دستی بم پھینکا گیا جس کے پھٹنے سے ایک بچی ہلاک اور کئی خواتین زخمی ہو گئیں اس کے بعد 5 محرم الحرام کی شب کراچی میں نصف گھنٹے کے اندر دہشت گردوں نے تابڑ توڑ حملے کر کے شہر کو ویران اور سڑکوں کو سنسان کر دیا۔ سب سے پہلے نیپا کی چورنگی پر امام بارگاہ کی حفاظت پر مامور پولیس موبائل پر دستی بم مارا گیا جس کے نتیجے میں موبائل میں آگ لگ گئی اور وہ جل کر تباہ ہو گئی جبکہ دو پولیس والے جھلس گئے اس کے کچھ دیر کے بعد سرجانی ٹاﺅن میں پولیس موبائل پر فائرنگ کی۔ گلستان جوہر میں بھی پولیس موبائل پر دستی بم حملہ کیا گیا اس سے قبل رضویہ سوسائٹی کی امام بارگاہ بہت بڑی تباہی سے بچ گئی جب مجلس کے دوران مٹھائی کے ڈبے میں موجود بم کو ناکارہ بنا دیا۔ ادھر محرم الحرام میں شیعہ سُنی کشیدگی پیدا کرانے اور فرقہ وارانہ فسادات کےلئے بعض قوتیں سرگرم رہیں۔ انہوں نے بیک وقت دونوں فرقوں کو نشانہ بنایا اورنگی میں ایک گھر پر دستی بم مارا گیا جس کے نتیجے میں 2 بچوں 6 خواتین سمیت 20 افراد زخمی ہو گئے جس گھر پر بم مارا گیا وہاں نیاز کےلئے حلیم تیار کی جا رہی تھی اور مالک مکان کا تعلق سُنی فرقہ سے تھا۔ ناگن چورنگی پر مسجد صدیق اکبر کی سیکورٹی پر مامور پولیس موبائل پر حملہ کیا گیا۔ کراچی میں اس سال محرم الحرام کے موقع پر سکیورٹی کے اس قدر سخت انتظامات کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ عاشورہ سے تین روز قبل جلوس کے راستوں کو سیل کر دیا گیا تھا اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے ذریعے نگرانی شروع کر دی گئی‘ تمام داخلی راستوں پر کنٹینر لگا دئیے گئے تھے اور کراچی کی تاریخ میں پہلی بار کنٹینرز پر پولیس کمانڈوز کھڑے کئے گئے ۔ رینجرز اور ایف سی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں اور حساس علاقوں میں فوجی دستے بھی لگا دئیے گئے تھے۔ اس دوران کئی سال تک اُفق سے غائب رہنے کے بعد جنداللہ ایک بار پھر منظر عام پر آ گئی اور اس کی دہشت گرد کارروائیاں لاہور تک وسیع ہو گئی ہیں۔ کراچی پر کامیاب دہشت گرد کارروائیوںکے بعد جنداللہ نے لاہور میں قیامت ڈھا دی۔ طالبان کے پس منظر میں جانے کے بعد جنداللہ پنجے گاڑھ رہی ہے۔ اس تنظیم نے سب سے پہلے کراچی کے علاقے ڈیفنس میں ایس ایس پی فاروق اعوان پر حملہ کر کے موجودگی کا احساس دلایا۔فاروق اعوان اس حملے میں بال بال بچ گئے تھے لیکن دو بے گناہ ہلاک اور کئی افراد زخمی ہو گئے تھے۔ 100 کلوگرام بارود کے دھماکے میں ایس ایس پی فاروق اعوان کا زندہ بچ جانا ایک معجزہ تھا۔
کراچی میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے جلسہ عام سے قبل بھی عسکریت پسندوں نے سر اُٹھانے کی کوششیں کی تھیں لیکن پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے سخت مو¿قف کے بعد وہ پسپا ہو گئے۔ بلاول بھٹو نے کہا تھا دہشت گرد مجھ سے ڈرتے ہیں۔ اس دوران کراچی میں داعش کی موجودگی بھی موضوع بحث بن گئی وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے کہا کہ کراچی میں داعش کی موجودگی کے ثبوت نہیں ملے لیکن القاعدہ کا نیٹ ورک موجود ہے۔ کراچی میں داعش اکتوبر کے وسط میں منظرعام پر آئی جب ایک صبح کراچی کے لوگ سو کر اُٹھے تو دیواریں داعش کے حق میں نعروں سے سیاہ ہو رہی تھیں جس پر لوگ حیران تھے اور چہ مگوئیاں کر رہے تھے۔ اب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی داعش کے خطرے کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں 10 سال سے طالبان کی نشاندہی کر رہا ہوں۔ سیاسی حلقوں کا موقف ہے کہ طالبان داعش اور جنداللہ ایک ہی مکتبہ فکر کا نام ہے۔ کبھی یہ طالبان کے نام سے بعض اوقات داعش کے نام سے سرگرم ہوتے ہیں اور بے گناہوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ طالبان نے کچھ عرصے قبل باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ وہ معصوم اور بے گناہ لوگوںکو نشانہ نہیں بنائیں گے لیکن جس سفاکی کے ساتھ لاہور میں خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ عائشہ منزل فلائی اوور سے مجلس پر مارے جانے والے بم دھماکے کے نتیجے میں بھی ایک معصوم بچی ہلاک اور 8 خواتین زخمی ہوئیں۔ لاہور میں خودکش دھماکہ کرنے والے نام نہاد عسکریت پسند آپس میں لڑ پڑے کیونکہ کئی گروپ نے بیک وقت ذمہ داری قبول کی احسان اللہ احسان نے ثبوت کےلئے ویڈیو جاری کرنے اور خود کش بمبار کے کوائف بتانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن وہ یہ آگاہ کرنے سے قاصر رہے کہ ضرب عضب کے بدلے کےلئے انہوں نے خواتین اور بچوں سمیت بے گناہوںکو کیوں نشانہ بنایا۔ لاہور میں بم دھماکے کے بعد کراچی میں خدشات بدستور موجود ہیں کہ عسکریت پسند یہاں بھی انتقامی کارروائی کر سکتے ہیں۔

مزیدخبریں