پاکستان کیلئے ہم سب کے جان و دل قربان یہ ملک ہماری پہچان ہے۔ ہمارا سائبان ہے۔ یہ سوہنی دھرتی اس حقیقت کا اعلان بھی ہے کہ ہم ایک آزاد ریاست کے شہری ہیں۔ ہمارے پاﺅں میں غلامی کی زنجیریں نہیں۔ آزادی کی نعمت کی قدر و قیمت اگر کوئی جاننا چاہتا ہے تو کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں سے پوچھ لیجئے۔ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں سے بھی حب الوطنی کا درس لیا جا سکتا ہے۔ وہ محصور پاکستانی جنہیںآج تک پاکستان سے محبت کی یہ سزا دی جا رہی ہے۔ کہ وہ بنگلہ دیش میں تمام تر بنیادی اور شہری حقوق سے محروم ہیں۔ پاکستان سے محبت کی انتہاءہے کہ ہمارے بہاری بھائیوں نے آج تک بنگلہ دیش کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ مگر ہمارے حکمران طبقے کے کردار کا یہ پہلو انتہائی افسوسناک ہے کہ ہم 43 سال گزرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کو اپنے سینے سے لگانے کیلئے کوئی مخلصانہ قدم نہیں اٹھاسکے۔ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کا میں نے بطور خاص اس لئے حوالہ دیا ہے کیوں کہ ہمارے ان پاکستانیوں بھائیوں نے آج بھی پاکستان سے اپنی محبت کے جذبوں کو سرد نہیں ہونے دیا اور اپنے دلوں میں پاکستانی پرچم کیلئے مچلتے ہوئے جذبات کی آگ کو بجھنے نہیں دیا۔ لیکن وہ پاکستانی جن کیلئے پاکستان میں ہر طرح کی نعمت اور خوشیوں کی دولت موجود ہے۔ انہوں نے کبھی اس بات کی فکر نہیں کی کہ پاکستان نے تو ہمیں سب کچھ دیا ہے مگر ہم نے پاکستان کو کیا دیا ہے یہ درست ہے کہ پاکستان اور انڈیا کی سرحدوں پر جب کسی عمارت کے اوپر ہم اپنے پیارے قومی پرچم کو لہراتا ہوا دیکھتے ہیں تو ہر محب وطن پاکستانی کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ لیکن قومی پرچم کے احترام کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ وہ تقاضے پورا کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ قومی پرچم دن کی روشنی میں ہی لہرایا جاتا ہے جب سورج غروب ہونے جا رہا ہو تو قومی پرچم اتار لیا جاتا ہے۔ کیوں کہ شب کی تاریکی زوال کی علامت ہے۔ رات کی تاریکی غلامی سے مطابقت رکھتی ہے اور صبح کا اجالا آزادی کے مانند ہے۔ سحر اگر شب گزید ہو تو اسے صبح آزادی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ ظلمت سے نکل کر نور کو پالینے کا نام آزادی ہے۔ رات کی آہنی میت کو دفنا دینے کے بعد جب مشرق کے افق سے دھڑکتا ہوا دن طلوع ہو تو ان ہی مبارک لمحوں کا نام آزادی ہے اس لئے آزادی کی قدروقیمت ہمیں دل و جان سے کرنا چاہئیے اور ہمارا قومی پرچم جو ہماری آزادی کی سب سے خوبصورت علامت ہے۔ اس قومی پرچم کی حرمت بھی ہمیں اپنے جسم و جان سے زیادہ عزیز ہونی چاہئیے۔ ہمارا پرچم ستارہ و ہلال، خدائے ذوالجلال کا ہم پر بے پناہ احسان ہے کیوں کہ جب یہ پاکستان کی آزاد فضاﺅں میں لہراتا ہے تو ہمارے دلوں اور ہماری روحوں میں بھی آزادی کی شہنائیاں گونجنے لگتی ہیں دانشوروں داناﺅں اورفرزانوں کی تو بات ہی الگ ہے ارض پاکستان میں بسنے والے دیوانے پاکستانی پرچم سے محبت کی راہ میں کسی سے پیچھے نہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جس کاغذ پر پاکستان کا پرچم چھپا ہوتا ہے اگر وہ کاغذ زمین پر گرا ہوا نظر آ جائے تو بچے اسے زمین سے اٹھا کر اپنی آنکھوں سے چوم رہے ہوتے ہیں۔ارض وطن کے ایک دیوانے محمد جلیل راﺅ ایڈووکیٹ نے مجھے فون کیا کہ میں صدر بازار سیالکوٹ میں گھنٹہ گھر کے ٹاور کے پاس کھڑا ہوں۔ ٹاور کی چوٹی پر پاکستان کا پرچم لہرا رہا ہے لیکن ہمارا قومی جھنڈا کچھ جھکا ہوا ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ جس طرح جھنڈا جھکا ہوا ہے اسی طرف انڈیا کی سرحد واقع ہے۔ میرا دوست دیوانہ وار بولے جا رہا تھا کہ جس سرکاری محکمہ نے گھنٹہ گھر پر قومی پرچم لہرایا ہے۔ اسے محکمہ کے افسروں نے قومی پرچم کو اتنی مضبوطی اور پائیداری سے استادہ کیوںنہیں کیا۔ کہ قومی پرچم انڈیا کی طرف جھکتا۔ اور اگر یہ قومی پرچم ان کی غفلت کے باعث مسلسل جھکا ہوا ہے تو کیا یہ قومی جرم نہیں ہے۔ میرا وکیل ساتھی مجھ سے سوال کر رہا تھا کہ ہماری قومی غیرت کہا ںجا کر سوگئی ہے۔ ہم اپنے وطن کی سلامتی کی خاطراپنے سر تو کٹوا سکتے ہیں لیکن انڈیا کی جانب اپنے قومی جھنڈے کا جھکاﺅ برداشت نہیں کر سکتے۔ میں نے اپنے دوست کو تسلی دی کہ میں وقت کینٹ بورڈ سیالکوٹ کے ایگزیکٹو آفیسر سید علی عرفان رضوی ہمارے ایک سینئر وکیل اعجازحسین رضوی (سابق سیشن جج) کے بیٹے ہیں۔ اور اتفاق سے وہ ایک ایسے افسر ہیں جنہیں اختیارات کی طاقت بھی اندھا نہیں کر سکی۔ اس لئے مجھے پورا اعتماد ہے کہ انہیں خود بھی گھنٹہ گھر کے اوپر چڑھ کر قومی جھنڈے کا رخ سیدھا کرنا پڑا تو وہ ایسا ضرور کرینگے۔ قومی جھنڈے کی سربلندی ہی میں ہم سب کی سربلندی ہے۔ میری یہ بات سن کر بھی جلیل راﺅ ایڈووکیٹ مطمئن نہ ہوا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں کچھ نہیں جانتا بس ہمارا قومی پرچم آسمان کے رخ پر سیدھا نہ کیا گیا تو وہ گھنٹہ گھر کی چوٹی سے کود کر خودکشی کر لے گا۔ سچی بات ہے کہ میں تو یہ دھمکی سن کر خوف زدہ ہو گیا کیوں کہ ہمارے سیالکوٹ کی راﺅ برادری بڑی جذباتی ہے۔ میرے ایک بھائیوں کی طرح عزیز دوست راﺅ پرویز ایڈووکیٹ بھی ایسے ہی جذباتی ہیں۔ پھر معاملہ پاکستان کا ہو تو انڈیا سے پاکستان کی محت میں ہجرت کرنیوالی راجپوت برادری کے لوگ اندھے ہو جاتے ہیں۔ مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے آنے والی راجپوت قوم یا دیگر برادریوں کے خاندانوں کے بہت سارے افراد انڈیا میں ہجرت کے دوران شہید بھی کر دیئے گئے تھے اس لئے ان کو انڈیا سے نفرت بھی شدید ہے اور پاکستان کے ساتھ محبت بھی شدید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انڈیا کی طرف پاکستان کے پرچم کا تھوڑا سا جھکا ہوا نظر آیا تو میرا وکیل دوست غصے سے تقریباً دیوانہ ہو گیا۔ ایسے دیوانے ہی پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ راﺅ پرویز اور راﺅ جلیل جیسے ہمارے ساتھی پاکستان کے چلتے پھرتے بم ہیں۔ کوئی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جسارت کرے تو یہ دونوں بم ایک سیکنڈ سے پہلے دھماکے سے پاکستان کے دشمن کو اڑا کر رکھ دیں۔ پاکستان کو ایسے ہی دبنگ اور دلیر لوگوں کی ضرورت ہے کہ جو ہمارے وطن عزیز کے دشمنوں کے لئے اللہ کا عذاب بن کر ٹوٹ پڑیں۔ ہمیں ضمیر فروشوں کے بجائے اپنے سرفروشوں کی عزت کرنی چاہئیے جو دشمن کے سامنے جھکنے کے مقابلہ میں جان پر کھیلنا بہتر سمجھتے ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ پاکستان کے دیوانوں کا نام ہماری قومی تاریخ میں انتہائی تعظیم کے ساتھ محفوظ رہے گا لیکن امن کی آشا کے نام پر انڈیا کیلئے محبت کے ترانے گانے والوں کے نام تاریخ حرف غلط کی طرح مٹا دے گی۔
قومی پرچم کا احترام
Nov 06, 2014