واہگہ دہشتگردی۔۔۔حوصلے مزید بلند ہوگئے

واہگہ پر 8 محرم کو دہشتگردوں نے ایک کربلا برپا کر دی۔ ایسے سانحات سے ایک خوف کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ لوگ سراسمیگی میں حواس باختہ ہو جاتے ہیں۔ جس جگہ دہشت گردی ہو وہاں جانے والے راستوں سے گزرنے سے گریز کرتے ہیں۔ 60 انسان پلک جھپکتے رزقِ خاک ہو گئے۔ ایک سو 25 زخموں سے چُور ہیں۔ ڈرانے بلکہ پاﺅں تلے سے زمین نکالنے کیلئے یہی کافی ہے۔ دشمن کا تعلق سرحد پار سے ہے یا ہمارے اندر موجود ہے۔ ایسی بربریت اور خونریزی کا مقصد ہمیں خوف میں مبتلا کرنا اور ہمارے حوصلے پست کرنا بھی تھا۔ 9 محرم کو دنیا جہان اور آسمان کی آنکھ نے عجیب اور تاریخی منظر دیکھا۔ پاکستانیوں کے سروں پر دہشت گردی کے خوف کے سائے لہرانے کے بجائے، دل و دماغ میں جذبہ حب الوطنی موجزن تھا۔وطن اور فوج سے محبت کے جذبات سے سرشار لوگ اندوہناک واقعہ کے دوسرے روز پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں پریڈ کی تقریب میں شامل ہوئے۔ دھماکہ اِدھر ہُوا،خوف اور سراسمیگی دوسری طرف دیکھنے میں آئی۔ اُس طرف ہُو کا عالم اور سناٹا تھا، جے ہند کہنے والے گھروں نہ نکلے۔ اِدھراللہ اکبراور پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند ہوتے رہے۔
9 محرم الحرام کو عموماً لوگ گھروں سے نہیں نکلتے۔ ٹی وی پر یہ اعلان کیا جاتا رہا کہ ”تین دن عوام پرچم اتارنے کی تقریب میں شریک نہیں ہو سکیں گے۔ پریڈ سے محض ایک گھنٹہ قبل عام لوگوں کو تقریب میں شرکت کی اجازت دے دی گئی اور اس مختصر سے وقت میں بھی لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر وہاں موجود تھا۔ پاکستانیوں نے دہشت گردوں کو واقعی ایک بھرپور پیغام دیا ”ہم ڈرنے والے نہیں، آخر کتنے پاکستانی مارو گے، آﺅ مارو! ہم پھر آ گئے ہیں۔“ آج لوگ پھر اپنے خاندان سمیت آئے تھے، بچے ، خواتین، بوڑھے عام دنوں کی طرح، بے دھڑک چلے آئے۔ وہ بھی تھے جو ایک روز قبل بھی آئے تھے، یقیناً ایسی قوم کو ہرانا ناممکن ہے۔
سرحدوں کے نگہبانوں کے حوصلے بلند رکھنے کیلئے قوم کی طرف سے اس لمحہ پر انکے شانہ بشانہ ہونے کا یہی بہترین وقت تھا۔ قوم نے ایسا کر کے ایک درخشاں روایت قائم کر دی۔ لوگ اپنی فوج کے ساتھ، اپنے وطن کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ دوسری طرف زرداری سرکار کی طرح نواز سرکار بھی دہشت گردوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہاں! ایسا ہی ہے اور بالکل ایسا ہے۔ سلطانی¿ جمہور کے دور میں نہ صرف دہشت گردوں بلکہ جرائم پیشہ عناصر کی بھی پشت پناہی کی جاتی ہے جس سے قتل و غارت گری کو فروغ مل رہا ہے۔ دشمنیاں چکانے والوں کیلئے یہ سنہرا دور ہے۔ سزائے موت پر عمل نہیں ہو رہا۔ موت کی سزا پانے والوں میں دہشت گرد، جاسوس، کن ٹُٹے، بھتہ خور، ٹارگٹ کلر اور ذاتی عداوت پر خاندان کے خاندان قتل کرنےوالے شامل ہیں۔دہشتگردی اور قتل و غارت گری روز کا معمول ہے ۔ قاتلوں کو پتہ ہے ان کو سزا نہیں ہو گی، ہوئی تو سزائے موت پر عمل ہی نہیں ہو گا۔ یہ جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزئی نہیں تو کیا ہے! کہا جاتا ہے کہ یورپی یونین نے جی ایس پی پلس کےلئے سزائے موت کے خاتمے کی شرط رکھی ہے گویا انسانیت کو مالیت پر قربان کر دو، جو ہمارے حکمران کر رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ہر محب وطن پاکستانی کی طرح واہگہ پر دہشت گردی پر بڑے آزردہ¿ ہیں۔انہوں نے فرمایا مظلوموں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ حکومتی کارپردازان بڑے جذباتی ہو کر کہتے ہیں دہشت گرد سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ آپ دہشت گردوں کو کیا سزا دیں گے۔ ان کو مرغا بنا کر اوپر رانا ثنااللہ اور امیر مقام کو بٹھا دیں گے؟ ان کی انگلیوں میں پنسل پھنسا کر چیخیں نکلوائیں گے یا دندیاں کاٹیں گے۔ سزائے موت پر عمل تو متروک ہے پھر ایسی” عبرتناک “سزائیں ہی باقی رہ جاتی ہیں جن سے دہشتگرد بچ نہ پائیں گے۔
حکومتی ارسطو پرویز رشید نے کہاکہ ” واہگہ بارڈر ہر حوالے سے حساس جگہ ہے، یہاں پاکستان زندہ باد کے نعرے گونجتے ہیں، دیکھنا پڑےگا کہ کوئی ہمسایہ ملک ان نعروں کو ختم کرنے کے درپے تو نہیں ؟“اگر ایسا ہے تو کیا اِس طرف سے پاکستان زندہ باد کے نعروں کی گونج تھم جائےگی۔قوم کی طرف سے دہشتگردی کے اگلے پاکستان زندہ باد کے نعرے کی گونج تو آسمان تک پہنچ رہی تھی ۔حکمرانوں کی تجارت کے چمن اور خرمن کوشائد یہ نعرے جھلسا رہے ہیں۔ حکومت نے واہگہ بارڈر پر فوری طور پر تین دن کیلئے تجارت معطل کر دی۔ گویا قومی غیرت تین دن کیلئے جاگی ہے۔
پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل شجاع خانزادہ فرماتے ہیں دھماکہ رینجرز کی حدود میں ہوا، یہ حکومت کو ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش ہے۔ رینجرز کی حدود میں دہشت گرد کیا آسمان سے ٹپکا تھا یا زمین سے نکلا تھا؟ خانزادہ صاحب نے 17جولائی کوکرنل (ر) شجاع خانزادہ نے انکشاف کیا تھاکہ رائیاں پنڈ رائے ونڈ میں مارے جانےوالے دہشت گردوں کا ہدف وزیراعظم ہاﺅس جاتی عمرہ تھا۔ آصف زرداری صدر بننے کے بعد امریکہ جارہے تھے کہ 20ستمبر 2008ءکو اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل پر دہشت گردی ہوئی، ہوٹل کا بڑا حصہ جل گیا۔غیر ملکیوں سمیت 60 افراد مارے گئے 300 زخمیہوئے۔ میریٹ ہوٹل کے مالک صدر الدین ہاشوانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ انہیں فون پر کہا گیا کہ کوئی صحافی سوال کرے تو بتائیں صدر زرداری نے اس شام ہوٹل میں آنا تھا۔ ہاشوانی نے ایسا کرنےسے انکار کر دیا۔ شجاع خانزادہ کو شاید کسی نے کہا بھی نہیں ہو گا انہوں نے خود ہی وفاداری جتا دی۔ اُس وقت وہ وزیر داخلہ نہیںتھے شاید یہ نوازش اُسی کار گزاری کا انعام ہے۔ ان کی طرح ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل طاہر خان بھی فخریہ کہتے ہیں دہشت گرد آگے چلا جاتا تو بہت زیادہ نقصان ہوتا۔دونوں نقصان کی کمی پر اترا رہے ہیں۔انہیں کوئی بتائے اس پر فخر نہیں شرم کریں۔
دھماکے کی ذمہ داری ادا کرنے والوں کی فطرت بھی ملاحظہ فرمائیے۔ جنداللہ اور طالبان کے ایک گروپ نے الگ الگ ذمہ داری قبول کی۔ کالعدم تنظیم طالبان کے احسان اللہ احسان بھی پیچھے نہ رہے، انہوں نے بھی اس دہشتگردی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ حملہ طالبان کے ایک گروپ نے کیا ہے۔ بعض طالبان تنظیمیں ایک شخص اور موبائل پر مشتمل ہیں اِدھر دھماکہ ہوا اُدھر ذمہ داری قبول کر لی۔ مولانا فضل الرحمن کے طالبان کا ساتھی ہونے میں کوئی شبہ نہیں، ان پر حملے کی ذمہ داری بھی ایک گروپ نے اپنے سر لے لی۔ سرِراہ قتل ہوا، سردارجی قریب سے گزر رہے تھے۔ پولیس نے پکڑکر قتل اس پر ڈالاتو اس نے سینہ تان کر کہا۔”ہاں میں نے قتل کیا ہے۔“ مقدمہ چلا ہر جگہ وہ ذمہ داری قبول کرتا چلا گیا، پھانسی کی سزا ہوئی۔ موجودہ دور میں وہ پھانسی سے بچ جاتا ہے‘ واقعہ ذرا پرانا ہے اس لئے اسے تختہ پر چڑھا دیا گیا۔ اس موقع پر بھی وہ اپنے قاتل ہونے پر فخر کر رہا تھا۔ اس نے کہا دیکھو قتل پتہ نہیں کس نے کیا پھانسی مجھے لگ رہی ہے۔ انسانوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے والوں کے صحیح الدماغ نہ ہونے میں دوسری رائے نہیں ہو سکتی۔

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...