شہدائے جموں اور ڈوگرا راج

1947ءکے موقع پر ہندوستان کے وہ علاقے جہاں ہندو یا سکھ اکثریت میں تھے وہاں مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کیا گیا۔ ایسے ہی جموں میں بھی لاکھوں مسلمان بے رحمی و بے دردی سے شہید کئے گئے۔ بعض جگہ مسلمانوں نے ہندو اور سکھوں کا ڈٹ کر جم کر مقابلہ کیا اور انہیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ تاہم اکثر مقامات پر مسلمانوں کا قتل عام یک طرفہ تھا جس کی تیاری پہلے سے ہو چکی تھی البتہ جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کا المیہ اور سانحہ سب سے الگ تھا۔ ہندوستان میں کانگریس بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کے فارمولے اور مقولے پر عمل پیرا رہی لیکن جب جموں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا تو ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ کی بغل میں بھی چھری تھی اور منہ میں بھی چھری تھی۔ ریاستوں اور مملکتوں میں جب فسادات ہوں تو حکمران اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ ہمدردی کے باوجود ظاہری طور پر ہی سہی کچھ نہ کچھ غیر جانبداری کا تاثر ضرور قائم رکھتے ہیں۔ ہری سنگھ وہ حکمران تھا جس نے تمام رکھ رکھاﺅ اور ظاہری تکلفات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلمانوں کے قتل عام کی نہ صرف کھلم کھلا سرپرستی کی بلکہ کوٹ میرا تحصیل اکھنور میں خود اپنے ہاتھوں سے مسلمانوں پر گولی چلا کر قتل عام کا آغاز کیا۔ جموں میں مسلمانوں پر جو بیتی وہ المناک اور خون کے آنسو رلا دینے والا باب ہے۔جب قیام پاکستان کے قیام کی تحریک چلی تو اس کی بنیاد بھی کلمہ طیبہ پر تھی اس لئے دونوں تحریکوں کا یکجا ہونا فطری امر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب ہندوستان کے طول و عرض میں پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کا نعرہ گونجا تو اہل کشمیر نے بلاتامل اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کر لیا۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ کا نعرہ نہ لگتا تو جموں اور کشمیر کے مسلمان اپنا مستقبل کبھی بھی پاکستان سے وابستہ نہ کرتے۔ اسی طرح اگر اہل کشمیر کے مسائل و معاملات اور مطالبات سماجی، انتظامی یا ذاتی نوعیت کے ہوتے توجموں کے مسلمانوں کو خون کے دریا سے نہ گزرنا پڑتا لیکن چونکہ وہ اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کر چکے تھے اس لئے مہاراجہ ہری سنگھ، کانگریس اور انگریز کی طرف سے ان کو بہت ہی بھیانک اور المناک سزا دی گئی۔ بڑے منظم طریقے سے انکے قتل عام کی منصوبہ بندی کی گئی۔ مہاراجہ کی 13بٹالین فوج میں ایک بٹالین مسلمانوں کی تھی اسے غیر مسلح کر دیا گیا۔ مسلمان پولیس افسروں اور سپاہیوں کو برطرف کر دیا گیا۔ جموں میں جن مسلمانوں کے پاس اسلحہ تھا وہ بحق سرکار ضبط کر لیا گیا۔جموں میں قتل عام کے منصوبے کی نگرانی جموں کے گورنر چیت رام چوپڑا اور ہری سنگھ کی بیوی تارا دیوی نے خود کی۔ ریاست کا وزیراعظم مہر چند مہاجن بھی پیش پیش تھا۔ مہاجن نے آنکھوں میں آنسو بھرتے اور چہرے پر بظاہر دوستانہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے جموں کے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ اگر وہ اپنی جان ومال اور عزتوں کا تحفظ چاہتے ہیں تو پاکستان کی طرف ہجرت کر جائیں۔مہاجن نے یہ بھی کہا کہ آپ سب کے پاکستان جانے کا انتظام سرکاری سطح پر کیا جائے گا۔ چنانچہ جموں کے مسلمانوں کا قافلہ تقریباً 60بسوں میں پاکستان جانے کیلئے تیار ہو گیا۔ جب یہ قافلہ سانبہ سے چند میل کے فاصلے پر مہوا کے قریب پہنچا تو وہاں ڈوگرافوجی پہلے سے گھات لگائے بیٹھے تھے۔ انہوں نے پہلے اہل قافلہ سے نقدی اور قیمتی اشیاءچھینیں، پھر اندھا دھند قتل عام شروع کر دیا اسکے بعد نوجوان لڑکیوں کو اغوا کر لیا گیا۔ اہل قافلہ میں سے بمشکل چند افراد ہی جانیں بچا کر بھاگ سکے تھے۔ ٹائمز آف لندن کیمطابق صرف جموں کے ڈھائی لاکھ مسلمان شہید کر دیئے گئے اور 5 لاکھ سے زائد افراد پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ کشمیر ٹائمز کے ایڈیٹر نے اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے ایک رات میں 24مسلمان دیہات کو شعلوں میں جلتے دیکھا۔ 123دیہات کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ ایسے بھی گاﺅں تھے جن کے تمام مردوں، بچوں اور بوڑھوں کو گولیوں سے اڑا دیا گیا۔ یہ ہے جموں کے مسلمانوں پر گزرنے والی قیامت صغریٰ کا مختصر تذکرہ لیکن اب یہ سب کچھ کس کو یاد ہے....؟ کون جانتا ہے کہ جموں کے مسلمانوں کی پاکستان سے محبت.... کیسی آزمائش بن گئی اور ان کو اس آزمائش و محبت کی کتنی قیمت ادا کرنا پڑی....؟ مگر آفرین ہے ان اہل وفا پر کہ جان، مال، عزت، آبرو، عزیزواقارب، گھربار، کاروبار .... سب کچھ قربان کر کے بھی وہ پاکستان کے ساتھ محبت و تعلق میں ثابت قدم رہے۔ جموں کے مسلمانوں نے اپنا فرض پورا کر دیا اسکے بعد ضروری تھا کہ ہمارے حکمران اپنا فرض پورا کرتے، بھارت کے ساتھ تعلقات، معاملات، مذاکرات، روابط اور تجارت میں مسئلہ کشمیر سر فہرست رکھتے۔ UNکی قراردادوں پر عملدرآمد کی سنجیدہ و موثر اور نتیجہ خیز کوششیں کرتے۔ مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کے مسائل و مصائب کو اپنے مسائل سمجھتے۔ ان کی قربانیوں، محبتوں، شجاعتوں اور شہادتوں کی قدر کرتے۔ کشمیر کی آزادی کیلئے اسی طرح جان توڑ جدوجہد کرتے جس طرح اہل کشمیر نے قیام پاکستان کے لئے کی تھی۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہمارے مسائل کی اصل وجہ جہاد سے اعراض اور مسئلہ کشمیر کے حل سے انحراف ہے۔ ہم کشمیری قوم سے کئے ہوئے اپنے قول، قرار اور عہد کو بھول گئے۔ 5لاکھ کشمیری شہدا کا خون ہم پر قرض ہے۔ اس قرض کو لوٹانا ہمارا فرض ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو شہ رگ پاکستان کہہ کر اس کی اہمیت و افادیت واضح کر دی تھی۔ اس کے بعد بانی پاکستان کی زندگی نے وفا نہ کی تو ہمارے حکمرانوں نے کشمیر سے وفا کرنا چھوڑ دی۔ اگر ہمارے حکمرانوں نے کشمیر کی حیثیت کو جانا ہوتا .... اس کی آزادی کو اپنی آزادی سمجھا جاتا تو کشمیر کب کا آزاد ہو چکا ہوتا۔ آج شہدا جموں کی قربانیوں میں ہمارے لئے یہ پیغام ہے کہ پاکستانی قوم کی تشکیل، تکمیل اور تعمیر کا راز قربانی اور جہاد میں مضمر ہے۔

ای پیپر دی نیشن