مداری جب ڈگڈگی بجاتا ہے تو بندر ناچتا ہے تو اس میں مداری کا کمال نہیں۔ قصور بندر کا ہے اگر اس میں تھوڑی سی بھی عقل شعور نام کی چیز ہو تو وہ نہ ناچے۔ بخدا” شیخ الاسلام“ کا کمال نہیں ہم عوام احمق ہیں جو اپنی عقل کو استعمال میں لائے بغیر سیاستدانوں اور آب” ملاﺅں“ کے فریب میں آ جاتے ہیں۔ 67سال بعد آج بھی ہمارے ساتھ جوہو رہا ہے اس کے ہم خود ذمہ دار ہیں ہم شریف برادران کی ” شرافت “ کو دیکھ کر ان پر مر مٹ جاتے ہیں۔ بلاول پر اب جیالے اس لئے صدقے واری ہو رہے ہیں گے کہ یہ محترمہ کا ” پتر“ ہے۔ سوہنا جوان ہے کچھ کہتے ہوں گے بھٹو کی طرح تو یہ لگتا ہے، آواز بھی بھٹو کی طرح ہے۔ واہ واہ کیا بات ہے۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ بھٹو فطری لیڈر تھا۔ اس کی صفات اس کے پوتے میں ہو سکتی ہیں مگر بلاول کا گائیڈ اور ”راہبر“ آصف زرداری ہے۔ باقی سب آپ جانتے ہیں بہر حال ہمارا موضوع ” ”شیخ الاسلام“کا ”فلاپ“ شو ہے۔ گزشتہ سال بھی قادری صاحب نے یہ ” شو “ کیا تھا۔ اس میں اسلامی شعائر کا بھی مذاق اڑایا گیا تھا۔ ” شیخ الاسلام“ کی عوام اور غریب انسانوں سے دوستی و محبت لوگوں کو اس دن ہی سمجھ آ جانی چاہئے تھی جس دن عمران خان کے کہنے پر موصوف کنٹینر سے نکل کر دھرنے میں موجود ” بد نصیبوں“ کے درمیان جب گئے تو دھوپ سے بچنے کے لئے چھتری ہاتھ میں تھی اور غریب جن کو انہوں نے حکماً دو ماہ سے یرغمال بنایا ہوا تھا ان سے جو بد بو آ رہی تھی اس سے بچنے کے لئے ” علامہ“ نے منہ پر رومال بھی رکھا ہوا تھا۔ یہ صاحب ” انقلابی قائد“ ہونے کے دعویدار تھے۔ لفظ انقلاب کی جس احسن طریقے سے ” توہین“ ”شیخ الاسلام“ نے کر دی ہے اگر اس وطن عزیز میں کوئی حقیقی انقلاب کے بارے بات بھی کرے گا تو لوگ اس سے بھی نفرت کریں گے۔ کروڑوں یا شاید اربوں روپیہ اس منظم ” شو“ پر خرچ ہوا ہو گا ان میں قادری صاحب کا ذاتی ایک پیسہ بھی نہیں لگا ہو گا۔ مقاصد کیا تھے؟ یہ رقم اگر ویسے غریبوں مسکینوں ،یتیموں اور بیواﺅں کو دے دی جاتی ”شیخ الاسلام“ کے حکم پر تو نہ صرف دنیا بلکہ آخرت کا سامان بھی ہو جاتا۔ مگر ایسے کرنے سے ’شیخ الاسلام‘ شہرت حاصل نہ کر پاتے جو اب وہ حاصل کر چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” وہ کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں“ موصوف ایک عالم دین ہیں ۔ لوگوں کی نظر میں اب بھی ہوں گے مگر دھرنوں سے قبل ہمارے دل میں ان کی جو رہی سہی عزت تھی اب ہماران ا کو ”سلام“ہے۔ کوئی حد ہوتی ہے”شعبدہ بازی کی دھرنے میں ان کی پر جوش تقاریر جب یاد آتی ہیں لگتا ہے وہ صرف ”لفاظی“ ہی تھی اور ہے، وطن عزیز میں ملا حضرات کو اسی لئے عوام الناس پسند نہیں کرتے کہ یہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں۔ لفظ ” انقلاب“ کو ” موصوف“ نے بالکل اسی طرح داغ دار کیا ہے جس طرح کچھ عرصہ قبل ”ملا“ فضل الرحمن نے یہ کہہ کر لفظ شہادت کی توہین کی تھی کہ اگر امریکہ کتا بھی مارے وہ بھی شہید ہے۔ مولوی طاہر القادری نے آغاز میں ماڈل ٹاﺅن میں کہا تھا کہ جو بھی انقلاب مارچ سے واپس آ جائے اسے شہید کر دو، اب ” حضرت “ نے خود واپسی کا اعلان کیا ہے۔ ذرا بتا دیں اب وہ خود کس سے شہید ہونا چاہئیں گے اور ان کے حواریوں کا کیا بنے گا، علامہ اقبال کی عظمت کو سلام، برسوں قبل فرما دیا تھا کہ ۔....ع
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں
کیسا دوھرا معیار ہے” مولانا‘ صاحب کا ایک طرف دھرنے سے واپسی پر شہید کرنے کا فتویٰ صادر فرمایا تھا، دوسری طرف سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والوں کا قصاص بدلہ چاہتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ خون کا بدلہ خون ہو گا۔ بلا شبہ پنجاب پولیس اور خادم اعلیٰ پر اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے مگر جب قادری صاحب دھرنے سے واپسی پر خود ہی شہید ہونے کے خواہش مند تھے تو تھوڑی سی جرا¿ت دکھائیں اور ماڈل ٹاﺅن میں مارے جانے والوں کو بھی شہید کا ہی درجہ دے دیں اور۔ خادم اعلیٰ کو بھی معاف کر دیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ حکومت اور شیخ الاسلام کے درمیان” مفاہمت“ ہو چکی ہے۔ ”چمک“ کی وجہ سے یا کوئی اور وسیلہ ہو یہ بھی سامنے آ جائے گا۔ اسی لئے تو وزیر اعظم صاحب نے بھی اپنے وزراءکو عوامی تحریک کے خلاف بیان دینے سے روک دیا ہے۔ کوئی دورائے نہیں ہیں، ہمارے ہاں ” شریعت“ کو عمل سے نہیں ثابت کیا جاتا محض ”لفاظی“ سے اور چہرہ بدل لینے سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اب مناسب ہو گا ملاں صاحب یہ ڈرامے بند کر دیں۔ بہت ہو گیا مذاق دین کے ساتھ اور عوام کے ساتھ بھی اگر قادری صاحب کی اپنے محسنوں( شریف برادران) سے کوئی ذاتی دشمنی ہے تو موصوف کی اور طریقے سے ان سے انتقام لیں۔ اب قادری صاحب کی جماعت پوری دنیا میں اسلام کی ”تبلیغ“ میں سر گرم عمل ہے۔ چندوں کی صورت میں دولت کے انبار لگنا معمولی بات ہے۔ مگر خدارا اس دولت کا کوئی نیک مصرف ہونا چاہئے۔ چوکوں میں دوسروں کی جوان بیٹیوں، عورتوں، بچوں کو ” شعبدہ بازی“ سے بٹھائے رکھنا اور حکمرانوں کو گالیوں سے دھمکیوں سے للکارنا یہ تو کسی عام مسلمان کو بھی زیب نہیں دیتا آپ تو ماشاءاللہ ” شیخ الاسلام“ ہیں۔” مولانا اب “ حکومت سے ” مک مکا“ کر کے بیرون ملک فرار ہو چکے ہیں اب اگلے سال شاید پھر نئے ”انقلابی ایجنڈے“ کے ساتھ رونما ہونگے۔ انکے ” مریدین“ انتظار فرمائیں۔
”شیخ السلام “ایجنڈے سمیت
Nov 06, 2014