کشمیر میں بھارتی فورسز کا دہشت پھیلانا انتہائی ناپسندیدہ‘ دنیا بڑھتی ہندو انتہا پسندی کا ضرور نوٹس لے : پاکستان

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) پاکستان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی، مسلمانوں سمیت اقلیتوں پر مظالم اور شیوسینا کی دہشت گردی کی کارروائیوں کا ضرور نوٹس لیا جائے۔ انہوں نے ایک بار پھر اس ہندو انتہا پسند تنظیم کی کارروائی کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ اقوام متحدہ اور بھارت نے کشمیری عوام سے ان کا حق خودارادیت دینے کا وعدہ کیا تھا، اس مقصد کے حصول کیلئے کوشاں کشمیریوں پر مظالم کی مذمت کرتے ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ قاضی خلیل اللہ نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران بھارتی وزیراعظم کے دورہ کشمیر کے موقع پر حریت رہنماﺅں اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری عوام حق خودارادیت کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں، یہ ان کا بنیادی حق ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سکیورٹی فورسز نے جس طرح دہشت پھیلا رکھی ہے یہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے انتخاب میں پاکستان کی شکست کے حوالے سے سوالات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو خطے کے بدلتے ہوئے منظرنامہ کے مطابق دیکھا جانا چاہئے۔ اس انتخاب میں کامیابی کیلئے پاکستان آخری وقت تمام ملکوں کے ساتھ رابطہ میں تھا مگر آخری لمحات پر صورتحال تبدیل ہوئی۔ اس ہار کے باوجود اس وقت بھی پاکستان اقوام متحدہ کے بیس اداروں کا منتخب رکن ہے، اقوام متحدہ کے امور میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لے رہا ہے، انسانی حقوق کونسل کا انتخاب ہم مسلسل تین بار جیتے ہیں، حالیہ انتخاب میں بھی ہمیں 105 ووٹ ملے، ہم نے کم سے کم ترانوے ووٹ لینا تھے تاہم منگولیا جو اس کونسل کے انتخاب میں پہلی بار آیا ہے، اسکی حوصلہ افزائی کیلئے آخری وقت میں رائے تبدیل ہوئی اور ہم انتخاب ہار گئے۔ افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے امکانات کے بارے میں انہوں نے کہا کابل کی درخواست پر پاکستان نے ان مذاکرات کیلئے سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا، اب بھی اگر افغان حکومت درخواست کرے گی تو اس مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کیلئے کردار ادا کرینگے۔ تحریک طالبان افغانستان میں تنازعہ ان کا اندرونی معاملہ ہے، اس پر اپنی رائے نہیں دے سکتے ہیں۔ گیتا کے حوالے سے ترجمان نے کہا کہ بھارتی حکام کی طرف سے گیتا کی بھارتی شہریت کی تصدیق کے بعد اسے بھارت کے سپرد کیا گیا، اس کا ڈی این اے ٹیسٹ نہیں مل رہا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کی تصدیق کا معیار کیا ہے۔ بارت میں موجود رمضان کے حوالے سے بھی یہ کہا جا رہا ہے ہم اس کی تصدیق کر رہے ہیں، جیسے ہی اس بات کی تصدیق ہو گی کہ وہ پاکستان کا شہری ہے تو ہم اس کی سپردگی کی درخواست کرینگے۔ سلامتی کونسل کی نیوکلیائی دہشت گردی کے حوالے سے قرارداد 1540 کسی ملک کے خلاف نہیں، پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور اس کے تحفظ کے اقدامات کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے، پاکستان کا سنٹر فار ایکسیلنس آف نیوکلیئر سکیورٹی مثالی ادارہ ہے جو اسلام آباد کے نواح میں قائم ہے۔ پاکستان نیوکلیئر سکیورٹی کے تحفظ کے یلئے تمام کنونشنز کی پاسداری اور اداروں کے ساتھ قریبی تعاون کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی چین کے سمندری راستے کا حل مذاکرات سے چاہتے ہیں۔
بمبئی (ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) معروف فلمساز، صحافی اور بھارتی ادیبہ ارون دتی رائے سمیت 24 فلمسازوں نے بی جے پی، آر ایس ایس اور ایس شیوسینا کی انتہا پسندی کیخلاف اپنے قومی ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انتہا پسندی کی حمایت مودی سرکاری کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے جسے وہ نہ نگل سکتی ہے اور نہ اگل سکتی ہے۔ 24 بھارتی فلم سازوں نے بطور احتجاج قومی ایوارڈز واپس کرنے کا اعلان بھارتی وزیراعظم اور صدر کے نام ایک خط کے ذریعے کیا گیا جس میں حکومت کو خبردار کیا گیا کہ سرکار کی انتہا پسند پالیسیوں کی وجہ سے بھارت میں جمہوریت ختم ہو سکتی ہے۔ قومی ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ارون دتی رائے نے کہا کہ اس وقت بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس پر شرمندہ ہیں۔ انسانوں کو مارنے اور زندہ جلائے جانے کو ”عدم برداشت“ کہنا درست نہیں ہے۔ اس وقت لاکھوں کی تعداد میں دلت، مسلمان اور عیسائی خوف کے عالم میں جی رہے ہیں کہ نہ جانے کب کسی حملے کا نشانہ بن جائیں۔ یہ انتہائی ناامیدی کی علامت ہے۔ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں کوئی بھی بدمعاش یا غنڈہ ایک خیالی گائے کو ”غیرقانونی“ طور پر ذبح کرنے کے الزام میں آپ کو قتل کر سکتا ہے۔ ان کے نزدیک ایک انسان کی کوئی قیمت نہیں۔ آج کوئی بھی ادیب بابا صاحب امبیدکر کی طرح کھل کر نہیں کہہ سکتا کہ ”ہندومت ہولناکیوں کا اصلی چہرہ ہے۔“ ایسا کہنے یا لکھنے والے کو مارا، جلایا یا جیل میں ڈالا جا سکتا ہے۔ آج کوئی ادیب وہ کچھ بھی نہیں لکھ سکتا جو سعادت حسن منٹو نے ”انکل سام کے نام خطوط“ میں لکھا ہے۔ اگر ہم آزادانہ طور پر بولنے کا اختیار نہیں رکھتے تو ہم ایک ایسے معاشرے میں تبدیل ہو جائیں گے جو ناقص غذائیت کا شکار ہو جاتا ہے اور دانشوروں کی نہیں بے وقوفوں کی قوم کہلاتا ہے۔ بھارت اب اس دوڑ میں شامل ہو گیا ہے جہاں سنسر شپ کا ٹھیکہ ایک ہجوم کو دے دیا گیا ہے۔ ارون دتی رائے نے لکھا ہے کہ وہ ایوارڈ واپسی تحریک کو سیاست سے الگ نہیں سمجھتیں اور انہیں خوشی ہے کہ وہ اس سیاسی تحریک کا حصہ بن رہی ہیں۔ ان کے خیال میں اس وقت شاعر اور ادیب جو کچھ کر رہے ہیں تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
ارون دتی رائے

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...