بدعنوانی اور قومی خزانے کی لوٹ مار روکنے کے لئے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے زمانے سے کوششیں شروع کر دی گئی تھیں۔ لیاقت علی خان نے بدعنوان سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کی کرپشن روکنے کے لئے "PRODA" کے نام سے ایک قانون نافذ کیا تھا۔ 1959ءمیں جنرل ایوب خان مارشل لاءحکومت کے دوران بدعنوان سیاستدانوں کا احتساب کرنے "EBDO" کے نام سے قانون نافذ کیا۔ سیاستدانوں کے علاوہ ایوب خان نے سینکڑوں کی تعداد میں سول افسروں کے خلاف بھی بدعنوانی کے کیس چلائے اور انہیں ملازمتوں سے بھی فارغ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد "The holders of represintatve office act" کے نام سے بدعنوانی کے خاتمے کے لئے قانون سازی کی ‘ لیکن اس قانون کے تحت کسی کیخلاف کوئی کیس نہیں بنایا گیا۔ جنرل ضیاءالحق نے پیپلز پارٹی کے دور میں ہونے والی بدعنوانی کی چھان بین کے لئے صدارتی حکم پی پی او نمبر 16 ‘ اور بی پی پی او نمبر 17جاری کئے۔ ان آرڈرز کے تحت پی پی پی کے ارکان اسمبلی کے اثاثوں کی چھان بین کی گئی اور کئی ارکان کیخلاف ناجائز اثاثے بنانے پر مقدمے بھی درج کئے گئے اور مقدمے چلائے بھی گئے۔1990ءمیں صدر غلام اسحاق خان نے 6اگست کو بینظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کر کے اسمبلیاں تحلیل کر دیں تو بینظیر بھٹو کی حکومت پر کرپشن کے سنگین الزامات لگائے گئے اور آصف علی زرداری کے خلاف بدعنوانی کے کئی ریفرنس عدالتوں میں دائر کئے گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ 1993ءمیں جب اسٹیبلشمنٹ اور صدر غلام اسحاق نواز شریف کیخلاف ہو گئے اور بینظیربھٹو کے ساتھ نواز شریف کو نکال کر انہیں اقتدار میں لانے کی ڈیل کی تو آصف علی زرداری جن کے خلاف صدر غلام اسحاق خان نے ریفرنس دائر کئے تھے انہیں عبوری حکومت میں بطور وزیر شامل کر لیا۔ 1996ءمیں بینظیر بھٹو کی حکوت کو خود پی پی پی کے صدر فاروق لغاری نے ڈس مس کیا تو عبوری وزیراعظم ملک معراج خالد نے کرپٹ سیاستدانوں کے احتساب کے لئے ایک احتساب ایکٹ جاری کیا۔ اس احتساب ایکٹ کو نواز شریف نے 1997ءمیں انتخاب میں کامیاب ہونے کے بعد ایک آرڈیننس کے ذریعہ جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ اس قانون کے تحت سرکاری بنکوں کے قرضے لے کر واپس نہ کرنے والے اور یوٹیلٹی بلز ادا نہ کرنے والے افراد کے لئے الیکشن لڑنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ 29 مئی 1997ءکو احتساب آرڈیننس میں ترمیم کی گئی اور 1985ءسے منتخب ہونے والے ارکان پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اثاثوں کا احتساب کرنے کا اعلان کیا گیا۔
1997ءمیں قائم ہونے والی مسلم لیگ ن کی حکومت نے چیف احتساب کمشنر کے اختیارات وزیراعظم سیکرٹریٹ میں قائم کئے گئے احتساب بیورو کو منتقل کر دئیے۔مسٹر سیف الرحمن احتساب بیورو کے سربراہ بنائے گئے۔ اس دور میں بینظیر حکومت میں ہونے والی بدعنوانی میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات بنائے گئے۔ بینظیر اور آصف علی زرداری کے خلاف ایس جی ایس کوٹیکنا کیس میں کمیشن کھانے اور اس کمشن کی رقم کو سوئیس بنکوں میں جمع کرانے کا کیس بھی اسی دور میں بنا تھا اور اس کی تحقیقات بھی ہوئی تھیں۔ اس کیس کا ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ بینظیر کے خلاف آئی جے آئی کی تشکیل اور آئی ایس آئی سے سیاسی مقاصد کےلئے پیسے لینے کا کیس سپریم کورٹ تک جا پہنچا لیکن ابھی تک کسی کو سزا نہیں دی جا سکی۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں نیب کا ادارہ بنایا گیا۔ کئی نامور سیاستدانوں ‘ تاجروں اور سرکاری افسروں کیخلاف کیس بنے۔ سیاستدان ‘ بیورو کریٹ اور تاجر گرفتار بھی ہوئے۔ ایک زمانے میں نیب کا بڑا خوف بھی تھا کئی بدعنوان سرکاری افسروں نے اپنی قیمتیں گاڑیاں چھپا دی تھیں اور ان کی بیگمات مہنگے سٹوروں سے خریداری کرنے سے بھی گریز کرنے لگی تھیں لیکن پھر چند ماہ کے بعد لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مشرف دور کے نیب کے ایک پراسیکیوٹر جنرل کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اسلام آباد کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں نیب زدہ افراد سے سودے بازی کرتے تھے۔انہیں بعد میں عہدہ سے ہٹا دیا گیا۔ نیب نے اربوں روپے کی رقم چوروں اور ڈاکو¶ں سے واپس لی۔کئی سرکاری افسران اوراہلکاروں نے پلی بارگین کے ذریعے کروڑوں روپے واپس کئے۔ کروڑوں روپے واپس کرنے کے باوجود سرکاری اہلکار اب پاک صاف ہوکر شاہانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ نیب کا ادارہ اب بھی یہ دعویٰ کررہا ہے کہ وہ اربوں روپے کی رقم واپس لے چکا ہے اور پکڑ دھکڑ جاری ہے لیکن لیاقت علی خان کے دور سے اب تک ہونے والے احتساب کے نتیجے میں پاکستان بدعنوانی سے پاک نہیں ہوسکا۔ جن بدعنوان سیاست دانوں اور بیورو کریٹس کو پکڑا جاتا ہے وہ ہاتھ سے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے جیل جاتے ہیں اور جب ضمانت پر رہا ہوکر آتے ہیں تو پھرہاتھ سے وکٹری کا نشان بنا رہے ہوتے ہیں بلکہ رہائی پر ان پر پھول پھینکے جاتے ہیں۔پہلے احتساب اور پھر انتخاب‘ کے نعرے بھی یہاں لگائے جاتے رہے۔ احتساب کے قوانین اور ادارے بنے لیکن پاکستان بدعنوانی کی دلدل میں مسلسل دھنستا چلا گیا۔بدعنوان ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا شمار چند بدعنوان ترین ملکوں میں ہوتا ہے جتنا احتساب ہوتا ہے اور جتنے احتساب کے نعرے بلند کئے جاتے ہیں۔ اتنا ہی کرپشن بڑھتی جاتی ہے۔مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والی بات ہے۔