’’نمائندہ حکمرانی بذریعہ انقلابی اقدامات‘‘

وطنِ عزیز ڈیڑھ عشرے سے دہشتگردی و ہر طرح کی اقتصادی، معاشرتی ،سماجی اور خصوصاً نفسیاتی یلغار کا تختہ مشق بنا ہوا ہے۔حالات نے افراد کے مائنڈ سیٹ پر کچھ ایسے اثرات مرتب کر دیئے ہیں جن کا احاطہ کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ سوسائٹی مکمل طور پر کمپرومائزڈ ہے۔ یعنی آنکھوں سے گناہ دیکھ کر بھی عذرِ گناہ کو کسی گلے سڑے قانونی ورق میں لپیٹے ہوئے قبول کر رہی ہے جس سے اقدار اور انصاف بری طرح مسخ ہو رہے ہیں۔طاقتور کی بے حسی کے آگے کمزور اپنی بے بسی کو بظاہر تسلیم کرتا نظر آتا ہے مگر اسکے اندر ایک لاوہ پک چکا ہے جس کے اثرات قیادت اور ہمسفروں پر بے اعتمادی ،اداروںسے خوف اور معاشرے میں عدم برداشت کی صورت میں نمایاں ہیں۔سوسائٹی میں طاقتور طبقوں کے ادغام نے اگرچہ ہر سطح پرمفاہمت کو ملی بھگت بنا کرردِعمل کو دبالیا ہے مگر اسکے نتیجے میں عدم تحفظ کا شکار 98فیصد لوگ انقلاب کی خواہش رکھتے ہیں۔جس طرح اس سوچ میں شدت آتی جا رہی ہے وہ دیگر زمینی حالات کی وجہ سے انقلاب کی بجائے انار کی تک توبا آسانی جا سکتی ہے۔لوگ خونیں انقلاب چاہتے ہیں نہ پاکستان اس کا متحمل ہو سکتا ہے بشرطیکہ اب بھی کوئی سنبھال سکے۔ پھرسیاسی پارٹیوں کے پاس ایک جیسے منشور ، ایجنڈے اور حربے ہیں جو عوام کے دکھوں کا ذکر تو کرتے ہیں مگرحل اور اسکا طریقہ کار بتانے سے قاصر ہیں۔
اس تناظر میں آج کے مسائل کا حل یہ ہے کہ عوام اگلے الیکشن سے پہلے پارلیمنٹ سے وہ اقدامات کروائیں جو آئین میں سہواً یا دانستہ طور پر رکھے گئے سوراخوںکو بند کر کے اصل جمہوریت کی طرف گامزن ہونے میں مدد دے سکیں۔کچھ نقاط شائد معروف اندازِ حکمرانی کیلئے مشکل ہوں مگر ہمیں انقلابی اقدامات یا خونیں انقلاب میں سے ہی کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ہمیں اپنے سیاسی اداراتی و حکمرانی کے ڈھانچے کو مضبوط بنیادوں پر استوارکرنے کیلئے ریفارمز لانی ہیں مگر جسطرح کی سٹڈیز جاری ہیں وہ ریفارمز کی بجائے عبارت کی تصحیح اور طریق کار تک محدود ہیں۔ہم ان حقائق کے تدارک کا آج بھی نہیں سوچ رہے جن کی وجہ سے ہمارا سسٹم ناکام ہورہا ہے۔آئیںاسکا آغاز الیکٹورل ریفارمز بشمول آئینی اقدامات سے کرتے ہیں۔ امید ہے ہمارے دوسرے اہلِ وطن اس سے بھی بہتر تجاوز سامنے لاسکیں گے۔
1۔پچھلی دفعہ الیکشن کمیشن کے ممبران کی تعیناتی اور طریقہ کارایک تماشہ بنارہا۔اس معمہ کا حل یہ ہے کہ ان کی تعداد بڑھا کر13کردی جائے۔ ہر صوبہ 3 ممبران بھیجے جو آپس میں ایک چیئر مین منتخب کرلیں۔پھر جس صوبے سے چیئر مین بنے وہ اسکی جگہ ایک اور ممبردے دے ۔تمام اہم فیصلے ونگرانی کے امور اکثریتی رائے سے طے کیے جائیں۔اس ضمن میں آئین کی متعلقہ شقوں پر بھی نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔
2۔امیدواروں کی سکروٹنی کیلئے صرف3/4 دن دئیے جاتے ہیں جو مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ۔الیکشن کمیشن کاایک خصوصی سیل الیکشن سے ایک سال پہلے یہ کام شروع کر دے جس میں تمام امیدوار پہلے ہی اپنے کاغذات (بینک،کیسز)وغیرہ بھجواکر کلیئرنس حاصل کر لیں۔ بعدازاں اگر کوئی ڈیفالٹ کرتا ہے تو ایسے چند کیسز آخری ہفتے میں بھی نمٹائے جاسکتے ہیں۔
3۔کسی شخص کو ایک سے زیادہ سیٹوں پر الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دی جائیگی۔5سیٹیں جیت کر4چھوڑ دینا ان حلقوں کے عوام سے دھوکہ اور حقیقی نمائندگی کی نفی ہے۔
4۔کسی سیٹ پربھی ضمنی انتخاب سوائے کسی ممبر کی موت کے نہ کرائے جائیں ۔نااہل یا مستعفی ہونے کی صورت میں سیٹ رنراپ (دوسری پارٹی ) کو دے دی جائے۔اس سے نہ تو جنرل الیکشن میں نا اہل لوگوںکو قومی خرچ پر اسمبلیوں میں لایا جا سکے گااور نہ کوئی شوکت عزیز سسٹم میں داخل ہو سکے گا۔علاوہ ازیں سیٹ کھونے کے ڈر سے پارٹیاں خود وہ نمائندے لائیں گی جو آرٹیکل 62-63کی زد میں نہ آتے ہوں۔
5۔ خواتین ممبران کے انتخاب کیلئے کوئی Criteria نہیں ہے بلکہ صرف پارٹیوں کی گریس مارکس کی صورت میں اپنے لئے ہاتھ کھڑاکرنے والوں کی تعدادبڑھادی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ 1/3اسمبلی غیر نمائندہ اور آزادانہ رائے سے محروم رہتی ہے۔جنہیں Sovereigntyکی حفاظت اور قانون سازی کرنا ہے ان کا بغیر انتخاب کے خالصتاً کسی اور کی مرضی سے لایا جانا اپنے اندر بے کراں تضاد رکھتا ہے۔اس کا حل یہ ہے کہ بندر بانٹ سسٹم ختم کر کے خواتین کو بھی الیکشن میں لایا جائے۔اسمبلی میں خواتین کا1/3کوٹہ حاصل کرنے کیلئے ہر حلقے میں دوبار مرد اور تیسری بار خواتین کے درمیان الیکشن ہو۔
6۔سینٹ کی 104نشستوں میں سے صرف 56 صوبائی اسمبلیوں کی صوابدیدپر ہوتی ہیں باقی پرجس طرح کی پریکٹس جاری ہے اس سے صوبوں کی صحیح نمائندگی نہیں ہوپاتی۔اسلام آباد جہاں کوئی علاقائی امتیاز نہیں ہے اسکی چاروں سیٹیں ختم کر کے باقی 100سیٹیں صوبوں میں یکساں تقسیم کردی جائیں۔ ہر صوبہ ایک حلقہ ہو جس میں امیدوار حاصل کردہ ووٹوں کی اکثریت کی بنیادپر سینٹ میں آئے۔ فاٹا کو صوبے کے طور پر شامل کیا جائے۔اس سے صحیح نمائندگی یقینی، اقتدارکا چور دروازہ اور ہارس ٹریڈنگ بند ہوسکتی ہے۔
7۔کسی بھی آئینی عہدے کیلئے آئین میں موجود اہلیت کی شرائط میں یہ بھی شامل کیا جائے کہ:-
(i) امیدوار کم ازکم دوسال پہلے سے پاکستان کے علاوہ کوئی اور شہریت نہ رکھتا ہو۔(ii)امید وار کم ازکم دس سال سے اپنے اصل ذریعہ معاش کیساتھ پاکستان میں مقیم ہو سوائے700دن بیرون ملک وزٹ کے۔
(iii)امیدوار کم ازکم 5سال تک کسی بھی سٹیج پر پاکستان میں زیر تعلیم رہا ہو۔پاکستان پر حکمرانی کیلئے پاکستانیوں کے ساتھ بچپن میں میل جول ہونا فطری شرط اول ہے۔
8۔پارلیمنٹ کی مدت 3سال کر دی جائے اور الیکشن کو کم ازکم 15 سال تک حکمرانوں کی ایڑیوں پر رکھا جائے تاکہ عوام اور حکمرانوں کا رابطہ ہمیشہ قائم رہے۔ویسے بھی ہماری کرپشن سے اجتناب اور صبر کی مدت بھی دوتین سال سے زیادہ نہیں ہوتی۔
9۔پارلیمنٹ کا زیادہ وقت جوڑتوڑ کی سیاست میں گزر تاہے جس کی بڑی وجوہات میںاوپر نمائندگان کا وزیرِاعظم بنانے میں کردار اور نیچے فنڈز کے ذریعے علاقے میں بے قائدگیاں ہیں اگر یہ دونوں اختیار ان سے لے لئے جائیں تو پارلیمنٹ میں سرمایہ کاروں کی بجائے صرف قانون سازہی بیٹھیں گے۔حکومت بچائو مہم سارا وقت اور ذرائع تباہ کردیتی ہے اس کا حل یہ ہے کہ وزیرِاعظم اور صدر کا چنائو براہِ راست عوام کے ووٹ سے ہو۔قانون سازی اور Impeachmentپارلیمنٹ کے پاس رہے۔یہ حقیقت ہے کہ یہ فیصلے زیادہ تر سیاسی لیڈروں کو ناپسند ہوں گے مگرشہریوں کے حقوق اور قومی ترقی کیلئے اس طرح کے اقدام ناگزیر ہوچکے ہیں۔تجاویز میں فوری اور تاخیر کیساتھ لائے جانیوالے اقدام کو مناسب طریقے سے روبعمل لایاجاسکتا ہے۔اسی طرح کی اوورہالنگ ہر شعبے میں درکار ہے جن کیلئے عوامی ایجنڈے پر غور ہوتا رہنا چاہئے۔ایک مضبوط سو سائٹی کا قیام اوراس طرح کا پبلک سو موٹو ہی پاکستان کی موجودہ مشکلات کا حل پیش کر سکتاہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...