نام نہ شائع کرنے کی شرط پر مجھے ملتان سے ’’نوائے وقت‘‘ کے ایک قاری نے فون کِیا کہ ’’مولانا فضل الرحمن نے یکم نومبر کو ملتان میں جمعیت عُلماء اسلام کے ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہُوئے یوں تو بہت سی باتیں کی ہیں لیکن آپ کو مولانا صاحب کے اِس بیان کا اپنے کالم میں ضرور نوٹس لینا چاہیے، جِس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’ہم مذہبی لوگ ہیں اور وطنِ عزیز کو ایک حقیقی مذہبی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔‘‘ اثر چوہان صاحب! کیا قائدِاعظمؒ نے پاکستان حقیقی مذہبی ریاست بنانے کے لئے بنایا تھا؟‘‘
’’حقیقی مذہبی ریاست پاکستان ؟‘‘
’’ نوائے وقت‘‘ کے اُس قابلِ احترام قاری کی خدمت میں گذارش ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور دوسرے مذہبی رہنمائوں کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر کسی وقت عام انتخابات میں عوام انہیں بھاری مینڈیٹ دے دیں تو وہ اقتدارمیں آ کر پاکستان کو ’’حقیقی مذہبی ریاست بنا دیں۔‘‘ قیامِ پاکستان کے بعد جتنی بار بھی عام انتخابات ہُوئے ہیں مذہبی جماعتوں کو پارلیمنٹ میں برائے نام ہی نمائندگی مِل سکی۔ پاکستان کو ’’حقیقی مذہبی ریاست‘‘ بنانے کے لئے مذہبی جماعتوں نے کئی حکمرانوں سے اتحاد کِیا لیکن کامیابی نہیں ہوئی ۔ یہاں تک کہ ’’پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ‘‘ کا وعدہ پورا نہ کر کے جنرل ضیاء الحق نے بھی مذہبی جماعتوں کو مایوس کِیا۔
قائدِاعظم نے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کی بنیاد پر اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کے لئے پاکستان بنایاتھا جِس میں تمام مذاہب کے لوگوں کو مساوی، مذہبی، سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کی گارنٹی دی گئی تھی۔ قائدِاعظمؒ نے واضح کر دِیا تھا کہ ’’پاکستان میں "Theocracy" (مولویوں کی حکومت) نہیں ہو گی۔‘‘ مصّورِ پاکستان علاّمہ محمد اقبالؒ نے ’’اجتہاد کا حق‘‘ مسلمانوں کی قومی اسمبلی کے منتخب ارکان کو دِیا تھا۔ عُلماء حضرات اگر اِس اسمبلی میں منتخب ہو سکیں تو ’’اجتہاد‘‘ کے عمل میں شرکت اُن کا حق ہے۔
بعض مذہبی جماعتوں کے قائدین نئی نسل کو بار بار یاد دلاتے ہیں کہ ’’پاکستان اسلام کے نفاذ کے لئے بنایا گیا تھا‘‘ درست ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُن کے اکابرین نے قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی؟ اور علاّمہ اقبالؒ اور قائدِاعظمؒ کے خلاف کُفر کے فتوے بھی دئیے تھے؟ مولانا فضل الرحمن کے والدِ محترم مولانا مفتی محمود کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ’’خُدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔‘‘ اِس کے باوجود مفتی صاحب مرحوم نے قائداعظمؒ کے پاکستان میں بھرپور سیاست کی۔ صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا)کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ 28 اپریل 1997ء کو قومی اخبارات میں شائع ہونے والا مولانا فضل الرحمن کا یہ بیان بھی خوب ہے کہ ’’پاکستان ایک خوبصورت نام ہے لیکن مجھے اِس کے طاغوتی (شیطانی) نام سے گھِن آتی ہے۔‘‘ مولانا صاحب محترمہ بینظیربھٹو، جنرل (ر) پرویز مشرف، جناب زرداری اور اب میاں نواز شریف کے اتحادی ہیں لیکن وہ پاکستان کو ’’حقیقی مذہبی ریاست‘‘ نہیں بنوا سکے۔
"Who is Musharraf?"
چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی اُن دنوں شاید طالبعلم ہونگے جب جناب ذوالفقار علی بھٹو نے فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کی وزارتِ خارجہ سے مستعفی ہو کر جون 1966ء میں عوامی سیاست میں قدم رکھا اور صدر ایوب خان پر تنقید شروع کر دی۔ اُن دنوں لاہور کے ایک خوبصورت نوجوان قانون دان سیّد احمد سعید کرمانی مغربی پاکستان کے وزیرِ اطلاعات تھے۔ انہوں نے فیلڈ مارشل صاحب کو کو خوش کرنے کے لئے بھٹو صاحب کے بارے میں تضحیک آمیز گفتگو کی۔ ایک صحافی نے بھٹو صاحب سے پوچھا کہ ’’احمد سعید کرمانی صاحب نے آپ کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، آپ اُس پر کیا تبصرہ کریں گے؟ بھٹو صاحب نے جواب میں صحافی سے کہا ’’احمد سعید کرمانی‘‘ "Who is She?" میاں رضا ربانی صاحب کو داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے اپنے لیڈر جنابِ بھٹو کے طنزیہ سٹائل کو یاد رکھا اور ایوان بالا میں وقفۂ سوالات کے دَوران سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا ذکر آنے پر فرمایا کہ "Who is Musharraf?"
ہُوا یُوں کہ خبر کے مطابق ’’سینٹ کے اجلاس میں کرنل (ر) طاہر مشہدی کے ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر مملکت برائے صحت محترمہ سائرہ افضل تارڑ نے جنرل ( ر) پرویز مشرف کو "Role Model" قرار دیتے ہُوئے کہا کہ ’’مشرف صاحب کہا کرتے تھے کہ ’’جذبات نہیں لفظ بولتے ہیں۔‘‘ چیئرمین رضا ربانی نے برہمی کا اظہار کرتے ہُوئے کہا کہ ’’مِنسٹر صاحبہ! مَیں آپ سے ضمنی سوال کرنا چاہتا ہُوں کہ "Who is Musharraf?" محترمہ سائرہ افضل تارڑ خاموش رہیں۔ اِس لئے کہ خاتون ہونے کے ناتے انہیں خاموش ہی رہنا چاہئیے تھا۔ ’’حِکمت‘‘ کے بارے میں بزرگوں نے کہا تھا کہ ’’یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟‘‘
چیئرمین سینٹ کی حیثیت سے اور عُمر کے لحاظ سے بھی میاں رضا ربانی اپنے مزاج سے برہمی کے اجزا خارج کردیں تو بہتر ہو گا۔ 30 جنوری 2015ء کو آئین میں 21ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر میاں صاحب آبدیدہ ہوگئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ ’’فوجی عدالتوں کے قیام کے بارے میں ووٹ دینے پر میرا ضمیر اجازت تو نہیں دیتا لیکن میرا ووٹ میری پارٹی (دراصل جنابِ زرداری) کی امانت ہے۔‘‘ جنابِ زرداری نے بھی میاں رضا ربانی کی ’’وفاداری‘‘ کو پیشِ نظر رکھا اور انہیں چیئرمین سینٹ منتخب کروا دِیا۔ ڈکٹیٹروں کے بارے میں جمہوری لیڈروں کی رائے بدلتی رہتی ہے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جب جنرل پرویز مشرف نے وزیرِاعظم میاں نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کرکے اقتدار سنبھالا تو جنابِ آصف زرداری جیل میں تھے۔ انہوں نے اِس خوشی میں کئی من مٹھائی منگوا کر جیل کے قیدیوں میں تقسیم کرائی۔ ’’نان گریجویٹ‘‘ آصف زرداری کو صدرِ پاکستان منتخب کروانے میں صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا "Role" تھا۔ اگرچہ پرویز مشرف جنابِ زرداری کے "Role Model" نہیں تھے لیکن اِس کے باوجود اُن کے منصبِ صدارت سے سبکدوش ہُونے کے بعد صدرِ پاکستان کی حیثیت سے جنابِ زرداری نے انہیں پُورے پروٹوکول کے ساتھ رخصت کِیا؟
27 دسمبر2014ء کو گڑھی خُدا بخش میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر جنابِ آصف زرداری نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو ’’بِلّا ‘‘ کہہ کر چھیڑا اورکہا کہ ’’پاک فوج بلّے کو سیاست میں لانا چاہتی ہے۔ ہمیں بتایا جائے کہ ہمیں کِس سے مقابلہ کرنا ہے۔‘‘ جنابِ زرداری کئی بار وزیراعظم نواز شریف کو بھی کہہ چُکے ہیں کہ ’’آپ اِس بلّے کو ہر گز نہ چھوڑیں، اِس لحاظ سے تو میاں رضا ربانی کا اپنی پارٹی (پارٹی لیڈر) سے وفاداری کا تقاضا یہی ہے کہ وہ کسی کو (خواہ وہ خاتون وزیر ہی کیوں نہ ہو) زبان پر سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا نام نہ لانے دیں۔ اب کیا کِیا جائے کہ سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے جناب ذوالفقار علی بھٹو اور پھر صُدور کی حیثیت سے جنرل (ر) پرویز مشرف اور جنابِ آصف زرداری کے نام ہماری قومی سیاسی تاریخ کا حِصّہ ہیں۔ کل کلاں کوئی جناب آصف زرداری کے بارے میں کسی سے پوچھے کہ Who is Zardari?" " تو اِس کا جواب کیا ہو گا اور کون دے گا؟