میرا خیال تھا کہ ابھی لارڈ نذیر احمد پاکستان ہی میں ہیں۔ جب برادرم محترم عامر محمود کے ڈیرے پر ان سے ملاقات ہوئی وہ ریلیکس تھے۔ کچھ لوگ بیٹھے تھے جو جلد ہی اٹھ گئے۔ اب وہاں برادرم عمران چودھری تھے۔ لارڈ نذیر کے پاکستان میں دوستوں کے ساتھ لارڈ صاحب کے رابطے چودھری صاحب قائم رکھے ہوئے ہیں۔ عمران چودھری کے ساتھ محبت ہے۔ برادرم نواز کھرل ہمیشہ ایک مدد گار کے طور پر سرگرم رہتے ہیں۔ یورپ اور لندن کی بات نجی محفلوں میں کم کم کرتے ہیں۔ یہ بات کرنے کا موقع ہو تو خوب کرتے ہیں۔ ان کے لیے ہمارے کولیگ کالم نگار اور سیاسی کارکن اکرم چودھری نے رات کے کھانے کا اہتمام کیا تھا۔ بہت لوگ وہاں ہوں گے مگر میں نہ جا سکا۔ اکرم چودھری کبھی مسلم لیگ ق میں تھے۔ ان کی بہت عزت تھی۔ اب وہ اپنے طور پر ن لیگ میں ہیں۔ وہ اپنے طور پر دعوتیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ برادرم اعجازالحق سے اکثر ملاقات ان کے گھر پر ہوتی ہے۔
ایک مقامی ہوٹل میں لارڈ نذیر کے ساتھ ایک شام تھی۔ ادبی تقاریب میں شام ہمیشہ رات میں ڈھل جاتی ہے۔ جن ملاقاتوں میں شام اور رات گلے مل رہی ہوں بڑا لطف آتا ہے۔ بے مزا ہوتی ہوئی زندگی میں ایک رنگ آجاتا ہے مگر ہم تو خوشبو کی تلاش میں رہتے ہیں۔ کسی شخصیت میں خوشبو رنگوں میں گم نہ ہو جائے تو رابطے رونقوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
شہر لاہور میں محفلیں ہوتی رہتی ہیں مگر کوئی سرگرمی روٹین بن جائے تو وہ تازگی کھو جاتی ہے جس کے لیے لوگ بکھر بکھر کر نکھرتے اور نکھر نکھر کر بکھرتے رہتے ہیں۔
سٹیج پر لارڈ نذیر تھے۔ ان کے ساتھ حاجی محمد حنیف طیب اور عبدالرزاق ماجد بھی تھے جو المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل برطانیہ کے چیئرمین ہیں مگر عمران چودھری ان کے ساتھ نہ بیٹھے تھے۔ وہ سامعین کے ساتھ لارڈ نذیر سے محبت کرنے والوں کے پاس بیٹھے تھے۔ یہ ہمیں زیادہ اچھا لگا اور اچھا لگا کہ تقریب ملاقات کی کمپیئرنگ میرے بھائی نواز کھرل نے کی۔ اس کے ساتھ ایک قلبی رفاقت ہے۔ وہ میری طرح بولتا ہے اور باتیں بھی میری طرح کرتا ہے۔ اس کی آواز بھی میری آواز سے ملتی جلتی ہے۔
کہا ہے عارف کامل نے مجھ سے وقت وداع
محبتوں سے ہیں بڑھ کر رفاقتوں کے حقوق
یہاں تقریب میں ایک نعرہ بھی متعارف کرایا گیا۔ ”روشنی سب کے لیے“ یہ نعرہ المصطفی کا سلوٹن ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے پاکستان برما بنگلہ دیش اور افریقہ کے ممالک میں فری آئی کیمپوں کا مشن جاری ہے۔
لارڈ نذیر نے اپنی تقریر میں مقبوضہ کشمیر کا ذکر کیا۔ وہاں آزادی کے متوالے کشمیریوں پر پیلٹ بندوقوں کے ذریعے مسلسل فائرنگ کے نتیجے میں ہزاروں کشمیریوں کو اندھا کر دیا گیا ہے جن میں بچے بوڑھے مرد عورتیں شامل ہیں۔ عالمی میڈیا میں بھی اس ظلم و ستم کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ اس سنگین اور گھمبیر صورتحال کے لیے لارڈ نذیر عالمی سطح پر آواز اٹھا رہے ہیں۔ ”المصطفی“ اس حوالے سے لارڈ نذیر اور عالمی تنظیموں کی شکر گزار ہے اور کشمیر جا کر اس مظلومیت کے ماحول میں عملی طور پر ویلفیئر کے معاملات میں شریک ہونے کا اہتمام کر رہی ہے۔ اس کے لیے لارڈ نذیر نے بھرپور آواز اٹھائی ہے۔
انہیں پاکستان کے لوگ اپنے محسن کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ اس حوالے سے حاجی طیب کی سرپرستی ایک بڑی طاقت کے طور پر ان کے ساتھ موجود ہے۔ آج کے اجتماع میں لارڈ نذیر اور حاجی صاحب کی خدمات کو سراہا گیا۔
فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے لارڈ نذیر کا نام اب ایک تحریک کی طرح سامنے آ رہا ہے۔ میں نے گورنر ہاﺅس میں لارڈ نذیر کو دیکھا۔ جب وہاں چودھری سرور گورنر کی حیثیت سے موجود تھے۔ وہ ایک عام پاکستانی کی حیثیت میں اپنے روزگار کے سلسلے میں انگلستان گئے مگر وہاں انہیں ہاﺅس آف کامن کا ممبر بنا دیا گیا۔ وہاں انہوں نے انگلستانی انداز کی سیاست کی تھی۔ گورنر پنجاب بننے کے بعد جب وہ پاکستانی سیاست سیکھ گئے تو انگلستان میں چودھری سرور کا بیٹا ہار گیا۔ اب وہ تحریک انصاف میں ہیں اور وہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننا چاہتے ہیں مگر ہاﺅس آف لارڈ کا ممبر تو ہمیشہ کیلئے ہوتا ہے لارڈ نذیر چاہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کے طور طریقے ٹھیک ہو جائیں۔
خوشی یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا کے سب خواتین و حضرات لارڈ نذیر کی عزت کرتے ہیں لارڈ نذیر اس عزت کا بہت لحاظ کرتے ہیں وہ اکثر پاکستان آ جاتے ہیں۔ عمران چودھری اور نواز کھرل نے پاکستانی میڈیا میں ان کیلئے دلچسپی کے بہت اسباب بنائے ہیں۔ ”روشنی سب کے لئے“ لارڈ نذیر کے اعزاز میںتقریب کا سلوگن تھا۔ مگر یہاں لوگ دل کے بھی اندھے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ لارڈ نذیر اس کیلئے بھی کوئی بے قراری دل میں رکھتے ہونگے۔ ”روشنی سے روشنائی تک کے“ جس سفر پر لارڈ نذیر نکلے ہوئے ہیںاسے کوئی نہ کوئی منزل ملے گی؟ میں اگرچہ مسافر ہونے کو اپنے لئے پسند کرتا ہوں مگر لارڈ نذیر سب کو ہمسفر بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اسی لئے وہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان بہت تسلسل سے سفر کرتے رہتے ہیں۔
کاش دور کے راستوں کے مسافروں کو کبھی منزل بھی ملے۔ یہ کیسی بات ہے کہ منزل ہمارے سامنے ہے مگر ہم ابھی وہاں پہنچ نہیں سکتے۔
مجھ سے ایک دوست پوچھنے لگا کہ دل کی آنکھیں کیسی ہوتی ہیں۔ میں نے کہا کہ بے قراری اور بیداری دل کی دو آنکھیں ہیں اور سرشاری کی منزل اس کے بعد آتی ہے۔ حیرت ہے کہ ایک آدمی جس کا تعلق پاکستان سے ہے۔ وہ انگلستان جا کر ان کے ہاﺅس آف لارڈز کا ممبر بن جاتا ہے۔ ایک پاکستانی کو انگریز جب مائی لارڈ کہتے ہونگے تو کیسا لگتا ہو گا۔ ہم تو محبت سے انہیں مائی لارڈ کہتے ہیں!!؟
مائی لارڈ
Nov 06, 2016