گیارہ اکتوبر کو بھارت کے بڑے ٹی وی چینلز پر بیٹھی خوبصورت نیوزکاسٹر کی آنکھوں میں تشویش کی گہری پرچھائیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ہمارے پڑوسی ملک کے نیوز چینلز اکثر پاکستانی ایٹمی طاقت کا موازنہ اپنی ایٹمی طاقت سے کرتے ہیں تواُس وقت اُن کے چہروں پر ہوائیاں اڑتی صاف نظر آتی ہیں ۔لیکن گیارہ اکتوبر کے دن جو خبر بھارتیوں کو پریشان کر رہی تھی وہ ان کے اپنے گھر میں لگی آگ کی وجہ سے تھی ۔خوبصورت مگر سہمی ہوئی آنکھوں والی لڑکی بہت دیر تک بھارتی پنجاب میں فصل کٹائی کے بعد کی صورتحال پر بات کر رہی تھی ۔ یہ بہت تشویش ناک خبر تھی کہ بھارتی کسانوں کے لیے دھان کی فصل کٹ جانے کے بعد (پرالی) کو ٹھکانے لگانے کا واحد حل آگ لگانا ہی رہ گیا ۔کسان نئی فصل کی کاشت سے پہلے پہلے بچ جانی والی پرالی کو آگ لگا رہے ہیں ۔پچھلے سال بھی اسی وجہ سے بھارت میں بھی سموگ کا سیزن چلتا رہا تھا ۔اس لیے اس سال کٹائی کے بعد پرالی کا جلایا جانا صاف کر رہا تھا کہ اس بار بھی سموگ کا عذاب برداشت کرنا پڑے گا ۔بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی پنجاب میں پرالی جلائے جانے سے دہلی ٟپنجاب اور پھر لاہور کا شدید متاثر ہونا یقینی ہوگا ۔اس خبر کو سننے کے بعد میں نے سوشل میڈیا پہ بھارتی کسانوں کی طرف سے کی جانی والی مجرمانہ غفلت کی نشاندہی کیٟ خبر شیئر کی تو لاہور میں بیٹھے میرے کچھ دوستوں کا کہنا تھا کہ اس سال پاکستان میں سموگ پڑنے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔اور مجھے حیرانی ہو ئی جب سموگ کے بعد میرے انہی دوستوں نے سموگ کی وجہ لاہور میں بنائی جانی والی اورنج ٹرین سروس کو قرار دینا شروع کر دیاہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے سال کی طرح امسال بھی ملک کے بہت سے علاقوں میں اور لاہور میں خصوصاً سموگ کا راج ہے ۔بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے ۔
ہر سال سردیوں کے شروع میں دنیا کے بہت سے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی دھند پڑتی ہے ۔گاڑیوں اور فیکٹریوں سے خارج ہونے والا زہرآلود دھواں فضا میں معلق رہتا ہے ۔جب دھند پڑتی ہے تو یہ دھواں دھند کے ساتھ مل سموگ کی وجہ بن جاتا ہے ۔اس سموگ میں کاربن مونو آکسائیڈ ٗائٹروجن آکسائیڈٟمیتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسے زہریلے مواد شامل ہوتے ہیں۔ماحولیات کے ماہرین کے مطابق یہ سب اجزا مل کے سموگ کی وجہ بن جاتے ہیں ۔اس آفت کا شکار صرف اہل لاہور ہی نہیں ہیں بلکہ دنیا میں اور بھی بہت سے ملک اور شہر اس بیماری کو بھگت رہے ہیں ۔چین کا شہر بیجنگ سموگ کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور رہا ہے ۔بیجنگ میں کئی سالوں سے ہر سال سموگ کی کیفیت رہتی ہے ۔یوں کہیے کہ سموگ کا پہلا شکار بیجنگ کے باشندے ہی بنے تھے ۔بیجنگ میں حال یہ ہے کہ لوگ گھروں سے نکلتے وقت ماسک پہنتے ہیں تو گھر میں رہنے کے لیے گھروں میں فلٹر لگا کے ہوا کو صاف کرتے ہیں ۔عالمی صحت کی آرگنائزیشن ایران کے شہر (حواز) کو سموگ کے حوالے سے بیجنگ سے بھی آگے بتاتی ہے ۔وہاںقدرتی گیس کا زیادہ استعمال ہوتا ہے ٟفیکٹریوں میں تیل اور دھات کا استعمال شہر کی فضا کو آلودہ بناتا رہتا ہے ۔منگولیہ کے درالحکومت اولان کا نمبر سموگ کا شکار ہونے کے حوالے سے دوسرے نمبر پر لیا جاتا ہے ۔ اولان میں سرد ی خوب پڑتی ہے۔لوگ خود کو گرم رکھنے کے لیے کوئلہ اور لکڑی کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں ۔جس سے فضائی آلودگی خطر ناک حد تک بڑھ جاتی ہے ۔ماہرین کے مطابق بھارت کے درالحکومت دہلی میں پچھلے تیس سالوں میں گاڑیوں کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ کے تیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے ۔ان گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں دہلی کو آلودہ کر رہا ہے ۔ اس کے ساتھ دہلی میں کوئلے سے چلنے والی بہت سی صنعتیں بھی فضا کو آلودہ کر رہی ہیں ۔سعودی عرب کا ایک اہم شہر ریاض بھی بدترین فضائی آلودگی کے شکار شہروں میں شامل ہے ۔لیکن سعودی عرب میں سموگ کی بڑی وجہ ریت کے طوفانوں کو بتایا جاتا ہے ۔مصر کا درالحکومت قاہرہ بھی سموگ کے شکا ر شہروں میں شامل ہے ۔قاہرہ میں بھی ٹریفک اور کارخانوں کا دھواں سموگ کی وجہ بن رہاہے ۔قاہرہ میں پھیپھڑوں کے کینسر کا شکار مریضوں کی تعداد روز بروز بڑ ھ رہی ہے ۔بنگلا دیش کے درالحکومت ڈھاکہ میں سموگ کا حملہ اس شدت سے ہوتا ہے کہ ہر سال سموگ کی وجہ سے پندرہ ہزار سے زیادہ لوگ انتقال کر جاتے ہیں ۔اور اس کی بڑی وجہ ڈھاکہ کی فضا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کا بہت زیادہ بڑھ جانا بتائی جاتی ہے ۔ماسکو کی فضاوں میں بھی یہ زہر شامل ہوچکا ہے ۔میکسیکو کی وجہ شہرت بھی کئی سالوں سے سموگ بن چکی ہے ۔لاہور بھی اس بیماری کے شکار شہروں میں شامل ہوچکا ہے ۔ا س کی بڑی وجہ شہر میں چلنے والی بے پناہ ٹریفک ہے ۔بہت سی پرانی گاڑیوں کو گراونڈ نہیں کیا تا رہا ۔گندگی اور کوڑا کرکٹ کسی سائنسی طریقے سے دوبارہ کا م میں نہیں لایا جاتا بلکہ جاں جگہ ملے جلادیا جاتا ہے ۔جو فضا کو گندہ کر رہا ہے ۔ اس کے علاوہ بھارت کے بارڈر پہ ہونے کی وجہ سے بھی لاہور شہر فضائی آلودگی کا شکار ہوجاتا ہے ۔سموگ کا شکار دنیا کے بہت سے بڑے بڑے شہر ہو رہے ہیں ۔جہاں جہاں سڑکوں پہ گاڑیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے وہاں وہاں شہروں کی فضا آلودہ ہو رہی ہے ۔میٹرو بس کی مخالفت کرنے والے اب اورنج ٹرین کو اس سموگ کی وجہ قرار دے کے حکومت کے خلاف محاذ بنانا چاہتے ہیں ۔ہر غلط کام کو حکومت کے کھاتے میں ڈال دینے سے مسائل حل نہیں ہوسکتے ۔حکومت نے سموگ سے بچنے کی آگاہی مہم چلانی ہے تو عوام نے اپنے کل کو محفوظ بنانے کے لیے آنے والے دنوں میں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کا عمل شروع کرنا ہے ۔شہر میں ٹریفک کا بہاو کم کر کے بھی ہم اپنے شہروں کو صاف ستھرا بنا سکتے ہیں ۔دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ملکو ںمیں سڑک کنارے سائیکل چلانے والو ںکے لیے بھی ٹریک بنائے جاتے ہیں ۔دھواں چھوڑتی گاڑیوں اور فضائی آلودگی کا سبب بننے والی فیکٹریوں کا بند کیا جانا سب سے پہلا کام ہونا چاہیے ۔
سردیوںکی بارشیں عنقریب شروع ہو جائیں گی تو فضا پھر سے نکھر جائے گی۔ہم بھی اس سموگ کو اگلے گیارہ مہینوں تک بھول جائیں گے ۔اور اگر ہم نے ہماری حکومت نے بدلتے موسم کے ساتھ اس عذاب کو یاد رکھا تو اگلے سال یہ دن آنے تک ہم بہت حد تک اس بیماری پر قابو پاسکیں گے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سموگ سے بہتر انداز میں نمٹنے کے لیے حکومت اور عوام دونوں کو ماحول کی بہتری کے لیے کام کرنا پڑے گا ۔آلودگی کا سبب بنے والی گاڑیوں اور کارخانوں کو فوری طور پر بند کر کے بھی ماحول کو بہتر کیا جاسکتا ہے ۔پنجا ب حکومت نے میٹرو بس کے بعد سپیڈو بسیں چلا کے شہر میں سفری سہولتوں کو بہتر کرنے کا احسن کام کیا ہے مگر بہت ضروری ہے کہ شہر کی آلودگی میں اضافہ کرنے والی چاند گاڑیوں کو فوری طور پر بند کیا جائے ۔پچاس چاند گاڑیاں سے زیادہ مسافر ایک سپیڈو بس میں با آسانی سفر کر سکتے ہیں ۔چاند گاڑیوں کی نا تو کوئی پاسنگ ہوتی ہے نہ روٹ ٟان میں ایندھن بھی ناقص استعمال ہو رہا ہے ۔کوڑے کرکٹ کو جدید طریقوں سے تلف کیا جانا چاہیے ۔جی ہاں خادم اعلیٰ صاحب یہ سب کام آپ کو ہی دیکھنے ہوں گے ۔میاں شہباز شریف کی طرف ہی اس وقت عوام کی نظریں لگی ہوئی ہیں ۔جس طرح آپ نے دن رات کام کرکے ڈینگی کو شکست دی ہے ۔اسی جذبے سے کام کر کے لاہور اور مضافات کو سموگ سے بچایا جاسکتا ہے ۔سڑکو ںکے کناروںپر زیادہ سے زیادہ درخت لگوائیے۔آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنوائیے۔